کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 262
’’پس تم صبر کرو،بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے اور (دیکھو) جو لوگ یقین نہیں رکھتے،وہ تمھیں بے صبرا نہ بنا دیں۔‘‘ لوگ آپ کو غضب ناک کرکے صبر و حلم ترک کرنے یا خوش آمد پر مجبور نہ کر دیں،بلکہ آپ اپنے موقف پر ڈٹے رہیں اور اس سے انحراف نہ کریں۔ 2۔سورت آل عمران (آیت:۱۸۶) میں فرمانِ الٰہی ہے: {لَتُبْلَوُنَّ فِیْٓ اَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْ وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْٓا اَذًی کَثِیْرًا وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ} ’’(اے اہلِ ایمان!) تمھارے مال و جان میں تمھاری آزمایش کی جائے گی اور تم اہلِ کتاب سے اور اُن لوگوں سے جو مشرک ہیں بہت سی ایذا کی باتیں سنو گے،تو اگر صبر اور پرہیزگاری کرتے رہو گے تو یہ بڑی ہمت کے کام ہیں۔‘‘ اہلِ کتاب سے مراد یہود اور نصاریٰ ہیں۔یہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم،اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مختلف اندازسے طعن و تشنیع کرتے رہتے تھے۔اسی طرح مشرکینِ عرب کا حال تھا۔علاوہ ازیں مدینے میں آنے کے بعد منافقین بالخصوص ان کا رئیس عبداللہ بن ابی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں استخفاف کرتا رہتا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینے آنے سے قبل اہلِ مدینہ اسے اپنا سردار بنانے لگے تھے اور اس کے سر پر تاجِ سیادت رکھنے کی تیاری مکمل ہو چکی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے اس کا یہ سارا خواب بکھر کر رہ گیا،جس کا اسے شدید صدمہ تھا،چنانچہ انتقام کے طور پر یہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا۔ان حالات میں مسلمانوں کو عفو و در گزر اور صبر و تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔جس سے