کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 259
’’جب آپ کو کوئی اہم معاملہ پیش آتا تو نماز کی طرف جلدی کرتے۔‘‘ اس لیے کہ آدمی جب تک نماز میں ہوتا ہے،برائی سے رکا رہتا ہے۔لیکن بعد میں اس کی تاثیر کمزور ہو جاتی ہے،اس کے برعکس ہر وقت اللہ کا ذکر اس کے لیے ہر وقت برائی میں مانع رہتا ہے۔ -247 اہلِ کتاب سے جدال: سورۃ العنکبوت (آیت:۴۶) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَ لَا تُجَادِلُوْٓا اَھْلَ الْکِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْھُمْ وَ قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِالَّذِیْٓ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ وَ اِلٰھُنَا وَ اِلٰھُکُمْ وَاحِدٌ وَّ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ} ’’اور اہلِ کتاب سے جھگڑا نہ کرو،مگر ایسے طریق سے کہ نہایت اچھا ہو،ہاں جو اُن میں سے بے انصافی کریں (اُن کے ساتھ اسی طرح مجادلہ کرو) اور کہہ دو کہ جو (کتاب) ہم پر اتری اور جو (کتابیں ) تم پر اُتریں،ہم سب پر ایمان لاتے ہیں اور ہمارا اور تمھارا معبود ایک ہی ہے اور ہم اُسی کے فرماں بردار ہیں۔‘‘ وہ بحث و مجادلہ میں افراط سے کام لیں تو تمھیں بھی سخت لب و لہجہ اختیار کرنے کی اجازت ہے۔بعض نے پہلے گروہ سے مراد وہ اہلِ کتاب مراد لیے ہیں،جو مسلمان ہوگئے تھے اور دوسرے گروہ سے وہ اشخاص جو مسلمان نہیں ہوئے،بلکہ یہودیت و نصرانیت پر قائم رہے اور بعض نے{ظَلَمُوْا مِنْھُمْ}کا مصداق ان اہلِ کتاب کو لیا ہے،جو مسلمانوں کے خلاف جارحانہ عزائم رکھتے تھے اور جدال و قتال کے بھی مرتکب ہوتے تھے۔ان سے تم بھی قتال کرو،تا آنکہ وہ مسلمان ہوجائیں یا جزیہ دیں۔