کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 258
تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَ الْمُنْکَرِ وَ لَذِکْرُ اللّٰہِ اَکْبَرُ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ} ’’(اے نبی!) یہ کتاب جو تمھاری طرف وحی کی گئی ہے،اس کو پڑھا کرو اور نماز کے پابند رہو،کچھ شک نہیں کہ نماز بے حیائی اور بُری باتوں سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر بڑا (اچھا کام) ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو،اللہ اُسے جانتا ہے۔‘‘ نماز سے ( بشرطیکہ وہ صحیح نماز ہو) انسان کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے،جس سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوتی ہے جو زندگی کے ہر موڑ پر اس کے عزم و ثبات کا باعث اور ہدایت کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔ اسی لیے قرآن کریم میں کہا گیا ہے: {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوۃِ}[البقرۃ:۱۵۳] ’’اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔‘‘ نماز اور صبر کوئی مرئی چیز تو ہے نہیں کہ انسان ان کا سہارا پکڑ کر ان سے مدد حاصل کرلے،یہ غیر مرئی چیز ہے۔مطلب یہ ہے کہ ان کے ذریعے سے انسان کا اپنے رب کے ساتھ جو خصوصی ربط و تعلق پیدا ہوتا ہے،وہ قدم قدم پر اس کی دستگیری اور راہنمائی کرتا ہے،اسی لیے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کی تنہائی میں تہجد کی نماز پڑھنے کی تاکید کی گئی،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو عظیم کام سونپا گیا تھا،اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی مدد کی بہت ضرورت تھی۔یہی وجہ ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی جب کوئی اہم مرحلہ درپیش ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کا اہتمام فرماتے: (( إِذَا حَزَبَہٗ أَمْرٌ فَزِعَ إِلیٰ الصَّلَاۃِ )) [1]
[1] مسند أحمد (۵/ ۳۸۸) و سنن أبي داود (۱۳۱۹) صحیح الجامع (۴۷۰۳)