کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 256
بھلائی کے ساتھ بُرائی کو دُور کرتے ہیں اور جو (مال) ہم نے اُن کو دیا ہے،اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘
’’صَبْر‘‘ سے مراد ہر قسم کے حالات میں انبیا علیہم السلام اور کتابِ الٰہی پر ایمان اور اس پر ثابت قدمی سے قائم رہنا ہے۔پہلی کتاب آئی تو اس پر اور اس کے بعد دوسری پر ایمان رکھا۔پہلے نبی پر ایمان لائے۔اس کے بعد دوسرا نبی آگیا تو اس پر ایمان لائے۔ان کے لیے دوہرا اجر ہے۔حدیث میں بھی ان کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تین آدمیوں کے لیے دوہرا اجر ہے،ان میں سے ایک وہ اہلِ کتاب ہے جو اپنے نبی پر ایمان رکھتا تھا اور پھر مجھ پر ایمان لے آیا۔‘‘[1]
2۔سورۃ الزمر (آیت:۱۰) میں ارشادِ الٰہی ہے:
{قُلْ یٰعِبَادِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا رَبَّکُمْ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ ھٰذِہٖ الدُّنْیَا حَسَنَۃٌ وَّاَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃٌ اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَھُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ}
’’کہہ دو کہ اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو! اپنے پروردگار سے ڈرو،جنھوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لیے بھلائی ہے اور اللہ کی زمین کشادہ ہے جو صبر کرنے والے ہیں،ان کو بے شمار ثواب ملے گا۔‘‘
3۔سورت یوسف (آیت:۹۰) میں ارشادِ ربانی ہے:
{قَالُوْٓا ئَ اِنَّکَ لَاَنْتَ یُوْسُفُ قَالَ اَنَا یُوْسُفُ وَ ھٰذَآ اَخِیْ قَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْنَا اِنَّہٗ مَنْ یَّتَّقِ وَ یَصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ}
’’وہ بولے کیا تم ہی یوسف ہو؟ انھوں نے کہا کہ ہاں میں ہی یوسف
[1] صحیح البخاري،کتاب العلم (۹۷) صحیح مسلم،کتاب الإیمان (۱۵۴)