کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 255
حصہ یا اس کا ترجیحی پہلو ہے۔جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی سب سے پہلے اپنے باپ آزر کو توحید کی دعوت دی تھی۔اس حکم کے بعد نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور ’’یَا صَبَاحَا‘‘ کہہ کر آواز دی۔یہ کلمہ اس وقت بولا جاتا ہے،جب دشمن اچانک حملہ کر دے،اس کے ذریعے قوم کو خبردار کیا جاتا ہے۔یہ کلمہ سن کر لوگ جمع ہو گئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے مختلف قبیلوں کے نام لے لے کر فرمایا: ’’بتلائو اگر میں تمھیں یہ کہوں کہ اس پہاڑی کی پشت پر دشمن کا لشکر موجود ہے،جو تم پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے،تو کیا تم مانو گے؟ سب نے کہا ہاں،یقینا ہم تصدیق کریں گے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اللہ نے نذیر بنا کر بھیجا ہے،میں تمھیں ایک سخت عذاب سے ڈراتا ہوں،اس پر ابو لہب نے کہا:تیرے لیے ہلاکت ہو،کیا تو نے ہمیں اس لیے بلایا تھا؟ اس کے جواب میں سورت{تَبَّتْ یَدَآ}تبت نازل ہوئی۔‘‘[1] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا اور اپنی پھوپھی صفیہ رضی اللہ عنہا کو بھی فرمایا تھا: ’’تم اللہ کے ہاں بچت کا بندوبست کرلو،میں وہاں تمھارے کام نہیں آسکوں گا۔‘‘[2] -244 صبر اور بھلائی کا دہرا بدلہ: 1۔پارہ20{اَمَّنْ خَلَقَ}سورۃ القصص (آیت:۵۴) میں فرمایا: {اُولٰٓئِکَ یُؤْتَوْنَ اَجْرَھُمْ مَّرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَ یَدْرَئُ وْنَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ} ’’ان لوگوں کو دوگنا بدلا دیا جائے گا،کیونکہ صبر کرتے رہے ہیں اور
[1] صحیح البخاري،تفسیر سورۃ المسد (۴۹۳۱) [2] صحیح مسلم،کتاب الإیمان،باب: {وَاَنْذِرْ۔۔۔} (۲۰۶)