کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 254
-242 اپنے گھر والوں کو سلام کہنا: سورۃ النور (آیت:۶۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ تَحِیَّۃً مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُبٰرَکَۃً طَیِّبَۃً کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ} ’’اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے (گھرو الوں کو) سلام کیا کرو (یہ) اللہ کی طرف سے مبارک اور پاکیزہ تحفہ ہے،اس طرح اللہ اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو۔‘‘ اس میں اپنے گھروں میں داخل ہونے کا ادب بیان کیا گیا ہے کہ داخل ہوتے وقت اہل خانہ کو سلام عرض کرو۔آدمی کے لیے اپنے بچوں یا بیوی کو سلام کرنا بالعموم گراں گزرتا ہے،لیکن اہلِ ایمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ کے حکم کے مطابق ایسا کریں۔آخر اپنی بیوی بچوں کو سلامتی کی دعا سے کیوں محروم رکھا جائے؟ -243 دعوتِ عامہ کا حکم: پارہ19{وَقَالَ الَّذِیْنَ}سورۃ الشعراء (آیت:۲۱۴،۲۱۵) میں فرمایا: {وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ . وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ} ’’اور اپنے قریب کے رشتے داروں کو ڈر سنا دو اور جو مومن تمھارے پیرو ہو گئے ہیں،ان سے متواضع پیش آؤ۔‘‘ پیغمبر کی دعوت صرف رشتے داروں کے لیے نہیں،بلکہ پوری قوم کے لیے ہوتی ہے اور نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو پوری نسلِ انسانی کے لیے ہادی اور رہبر بن کر آئے تھے۔قریبی رشتے داروں کو دعوتِ ایمان،دعوتِ عام کے منافی نہیں،بلکہ اسی کا ایک