کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 249
3۔ اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا۔[1] جب تک شادی کی استطاعت حاصل نہ ہوجائے،پاکدامنی کے لیے نفلی روزے رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔فرمایا: ’’اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو شادی کی طاقت رکھتا ہے،اسے (اپنے وقت پر) شادی کرلینی چاہیے،اس لیے کہ اس سے آنکھوں اور شرم گاہ کی حفاظت ہوجاتی ہے اور جو شادی کی طاقت نہیں رکھتا،اسے چاہیے کہ وہ (کثرت سے نفلی) روزے رکھے،روزے اس کی جنسی خواہش کو قابو میں رکھیں گے۔‘‘[2] -236 فرماں برداری،راہِ ہدایت اور پیغام رسانی: سورۃ النور (آیت:۵۴) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {قُلْ اَطِیعُوا اللّٰہَ وَاَطِیعُوا الرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّوا فَاِنَّمَا عَلَیْہِ مَا حُمِّلَ وَعَلَیْکُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ وَاِنْ تُطِیعُوْہُ تَھْتَدُوْا وَمَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ} ’’کہہ دو کہ اللہ کی فرماں برداری کرو اور رسول اللہ کے حکم پر چلو،اگر منہ موڑو گے تو رسول پر (اس چیز کا ادا کرناہے) جو ان کے ذمے ہے اور تم پر (اس چیز کا ادا کرنا) ہے جو تمھارے ذمے ہے اور اگر تم ان کے فرمان پر چلو گے تو سیدھا راستہ پاؤ گے اور رسول کے ذمے تو صاف صاف (احکامِ الٰہی کا) پہنچا دینا ہے۔‘‘ کوئی ان کی دعوت کو مانے یا نہ مانے،جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا: {فَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلٰغُ وَ عَلَیْنَا الْحِسَابُ}[الرعد:۴۰]
[1] شرح صحیح البخاري لابن الملقن (۲۴/ ۲۳۶) البدر المنیر (۷/ ۴۳۲) [2] صحیح البخاري،کتاب الصوم (۱۹۰۵) صحیح مسلم،کتاب النکاح (۱۴۰۰)