کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 248
وسعت والا اور (سب کچھ) جاننے والا ہے۔اور جن کو بیاہ کا مقدور نہ ہو،وہ پاک دامنی کو اختیار کیے رہیں،یہاں تک کہ اللہ ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے اور جو غلام تم سے مکاتبت چاہیں،اگر تم ان میں (صلاحیت اور) نیکی پاؤ تو ان سے مکاتبت کر لو اور اللہ نے جومال تمھیں بخشا ہے،اس میں سے ان کو بھی دو ا ور اپنی لونڈیوں کو اگر وہ پاک دامن رہنا چاہیں تو (بے شرمی سے) دنیوی زندگی کے فوائد حاصل کرنے کے لیے بدکاری پر مجبور نہ کرنا اور جو ان کو مجبور کرے گا تو ان (بیچاریوں ) کے مجبور کیے جانے کے بعد اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ اس آ یت میں خطاب اولیا سے ہے کہ نکاح کردو۔یہ نہیں فرمایا کہ نکاح کر لو کہ مخاطَب نکاح کرنے والے مرد و عورت ہوتے۔اس سے معلوم ہوا کہ عورت ولی کی اجازت اور رضا مندی کے بغیراز خود اپنا نکاح نہیں کر سکتی،جس کی تائید احادیث سے بھی ہوتی ہے۔اسی طرح امر کے صیغے سے بعض نے استدلال کیا ہے کہ نکاح کرنا واجب ہے،جب کہ بعض نے اسے مباح و جائز اور بعض نے مستحب و پسندیدہ قرار دیا ہے۔تاہم استطاعت رکھنے والے کے لیے یہ سنتِ موکدہ بلکہ بعض حالات میں واجب ہے اور اس سے اجتناب کرنے کی سخت وعید ہے۔نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’جس نے میری سنت سے انکار کیا،وہ مجھ سے نہیں۔‘‘[1] محض غربت اور تنگ دستی نکاح میں مانع نہیں ہونی چاہیے،ممکن ہے نکاح کے بعد اللہ ان کی تنگ دستی کو اپنے فضل سے وسعت ورزق میں بدل دے۔حدیث میں آتا ہے کہ تین شخص ہیں جن کی اللہ ضرور مدد فرماتا ہے: 1۔ نکاح کرنے والا جو پاک دامنی کی نیت سے نکاح کرتا ہے۔ 2۔ مکاتب غلام،جو ادا کرنے کی نیت رکھتا ہے۔
[1] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۵۰۶۳) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۱۴۰۱)