کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 246
یعنی بسم اللہ پڑھ کر،کیونکہ ا للہ کی یاد،شیطان کو دور کرنے والی چیز ہے۔اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا بھی مانگتے تھے:
(( اللَّھُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْھَرَمِ وَ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْغَرَقِ،وَ اَعُوْذُ بِکَ اَنْ یَّتَخَبَّطَنِيَ الشَّیْطَانُ عِنْدَ المُوْتِ )) [1]
’’اے اﷲ! میں از حد بوڑھا ہو جانے سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور اس سے کہ کوئی مکان یا دیوار مجھ پر اثر کرے اور غرق ہو جانے سے اور اس سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ شیطان مجھے موت کے وقت بد حواس کر دے۔‘‘
-233 حسنِ ظن:
سورۃ النور (آیت:۱۲) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{لَوْلآاِذْ سَمِعْتُمُوْھُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِھِمْ خَیْرًا وَّقَالُوْا ھٰذَا اِفْکٌ مُّبِیْنٌ}
’’جب تم نے وہ بات سنی تھی تو مومن مردوں اور عورتوں نے کیوں اپنے دلوں میں نیک گمان نہ کیا اور کیوں نہ کہاکہ یہ صریح طوفان ہے۔‘‘
یہاں تربیت کے بعض ان پہلوئوں کو نمایاں کیا جا رہا ہے جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کے واقعے میں مضمر ہیں۔ان میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اہلِ ایمان ایک جان کی طرح ہیں،جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت طرازی کی گئی تو تم نے اپنے اوپر قیاس کرتے ہوئے فوراً اس کی تردید کیوں نہ کی اور اسے بہتانِ صریح کیوں قرار نہیں دیا؟
-234 معافی تلافی کا رویہ اپنانا:
سورۃ النور (آیت:۲۲) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
[1] سنن أبي داود کتاب الطب،رقم الحدیث (۱۵۵۲) مسند أحمد (۲؍ ۱۸۱)