کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 244
{اِنَّ الَّذِیْنَ ھُمْ مِنْ خَشْیَۃِ رَبِّھِمْ مُّشْفِقُوْنَ . وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ یُؤْمِنُوْنَ . وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِرَبِّھِمْ لاَ یُشْرِکُوْنَ . وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوا وَّقُلُوْبَھُمْ وَجِلَۃٌ اَنَّھُمْ اِلٰی رَبِّھِمْ رٰجِعُوْنَ . اُولٰٓئِکَ یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَھُمْ لَھَا سٰبِقُوْنَ} ’’جو لوگ اپنے پروردگار کے خوف سے ڈرتے ہیں۔اور جو لوگ اپنے پروردگار کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں۔اور جو اپنے پروردگار کے ساتھ شریک نہیں کرتے۔اور جو دے سکتے ہیں وہ دیتے ہیں اور ان کے دل اس بات سے ڈرتے رہتے ہیں کہ ان کو اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔یہی لوگ نیکیوں میں جلدی کرتے ہیں اور یہی ان کے لیے آگے نکل جاتے ہیں۔‘‘ مومن نیک اعمال کر کے بھی ڈرتے ہیں۔فرمان ہے کہ احسان اور ایمان کے ساتھ ہی ساتھ نیک اعمال اور پھر اللہ کی ہیبت سے تھرتھرانا اور کانپتے رہنا،یہ ان کی صفت ہے۔[1] وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں،لیکن اللہ سے ڈرتے ہیں کہ کسی کوتاہی کی وجہ سے ہمارا عمل یا صدقہ غیر مقبول قرار نہ پائے۔حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا:ڈرنے والے کون ہیں ؟ وہ جو شراب پیتے،بدکاری کرتے اور چوریاں کرتے ہیں ؟ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’نہیں،بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز پڑھتے،روزہ رکھتے اور صدقہ و خیرات کرتے ہیں لیکن ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں یہ غیر مقبول نہ ٹھہریں۔‘‘[2] -232 برائی کو بھلائی سے دفع کرنا اور شیطانی وسوسوں سے اللہ کی پناہ مانگنا: 1۔سورۃ المومنون (آیت:۹۶،۹۷،۹۸) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
[1] تفسیر ابن کثیر (۳/ ۴۵۹) [2] سنن الترمذی،تفسیر سورۃ المومنون (۳۱۷۵) مسند أحمد (۶۔۱۹۵۔۲۰۵)