کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 228
ستاروں کے ڈوبتے وقت تسبیح سے مراد فجر کی دو سنتیں ہیں۔نوافل میں سب سے زیادہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی حفاظت فرماتے تھے۔[1] ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’فجر کی دو سنتیں دنیا و ما فیہا سے بہتر ہیں۔‘‘[2] 3۔سورت قٓ (آیت:۳۹،۴۰) میں بھی صبر و تسبیح کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے: {فَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوْبِ . وَمِنَ الَّیْلِ فَسَبِّحْہُ وَاَدْبَارَ السُّجُوْدِ} ’’جو کچھ یہ (کفار) بکتے ہیں اس پر صبر کرو اور آفتاب کے طلوع ہونے سے پہلے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے رہو۔اور رات کے بعض اوقات میں بھی اور نماز کے بعد بھی اس (کے نام) کی تسبیح کیا کرو۔‘‘ 4۔سورۃ الواقعہ (آیت:۷۴) میں فرمایا ہے: {فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ} ’’تم اپنے پروردگار بزرگ کے نام کی تسبیح کرو۔‘‘ 5۔سورۃ الاعلیٰ (آیت:۱) میں ارشادِ الٰہی ہے: {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلَی} ’’(اے پیغمبر!) اپنے جلیل الشان پروردگار کے نام کی تسبیح کرو۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ الاعلیٰ اور سورۃ الغاشیہ عیدین اور جمعے کی نمازوں میں پڑھا کرتے تھے،اسی طرح وتر کی پہلی رکعت میں سورۃ الاعلی،دوسری میں سورۃ الکافرون اور تیسری میں سورۃ الاخلاص پڑھتے تھے۔[3]
[1] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۱۱۶۹) [2] صحیح مسلم،کتاب الصلاۃ (۷۲۵) و سنن الترمذي،رقم الحدیث (۴۱۶) [3] تفسیر ابن کثیر (ص: ۱۷۰۹)