کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 224
ایک رات نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف سے ہوا تو وہ پست آواز سے نماز پڑھ رہے تھے،پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا تو وہ اونچی آواز سے نماز پڑھ رہے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں سے پوچھا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:میں جس سے مصروفِ مناجات تھا،وہ میری آواز سن رہا تھا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میرا مقصد سوتوں کو جگانا اور شیطان کو بھگانا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:’’اپنی آواز قدرے بلند کرو۔‘‘[1] اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا:’’اپنی آواز کچھ پست رکھو۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ یہ آیت دعا کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[2] 219۔اِن شاء اللہ کہنے کا حکم: پارہ 16{قَالَ اَلَمْ}سورۃ الکہف (آیت:۲۳،۲۴) میں فرمایا: {وَ لَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْئٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا . اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ وَ اذْکُرْ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیْتَ وَ قُلْ عَسٰٓی اَنْ یَّھْدِیَنِ رَبِّیْ لِاَقْرَبَ مِنْ ھٰذَا رَشَدًا} ’’اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کر دوں گا۔مگر (ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر) اللہ چاہے تو (کر دوں گا) اور جب اللہ کا نام لینا بھول جاؤ تو یاد آنے پر لے لو اور کہہ دو کہ اُمید ہے کہ میرا رب مجھے اس سے بھی زیادہ ہدایت کی باتیں بتائے۔‘‘ مفسرین کہتے ہیں کہ یہودیوں نے نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تین باتیں پوچھی تھیں،روح کی حقیقت کیا ہے؟ اصحابِ کہف اور ذوالقرنین کون تھے؟ کہتے ہیں کہ یہی سوال اس سورت کے نزول کا سبب ہے۔نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں تمھیں کل
[1] سنن أبي داود،رقم الحدیث (۱۳۲۹) [2] صحیح البخاري (۴۷۲۳) تفسیر آیت مذکورہ سورۃ بنی إسرائیل (۶۳۲۷) کتاب الدعوات (۷۵۲۶) کتاب التوحید۔