کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 199
تحرّف اور تحیّز کی وہ دونوں صورتیں مستثنیٰ ہوں گی،[1] کیوں کہ بعض دفعہ ثباتِ قدمی کے لیے بھی تحرّف یا تحیّز ناگزیر ہوتا ہے۔دوسری ہدایت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرو،تاکہ مسلمان اگر تھوڑے ہوں تو اللہ کی مدد کے طالب رہیں اور اللہ بھی کثرتِ ذکر کی وجہ سے ان کی طرف متوجہ رہے اور اگر مسلمان تعداد میں زیادہ ہوں تو کثرت کی وجہ سے ان میں عُجب اور غرور پیدا نہ ہو،بلکہ اصل توجہ اللہ کی امداد پر ہی رہے۔ 188۔تنازعات کے نقصانات: 1۔سورۃ الانفال (آیت:۴۵،۴۶) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَ اذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ . وَ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَ اصْبِرُوْا اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ} ’’اور اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر چلو اور آپس میں جھگڑا نہ کرنا کہ (ایسا کرو گے تو) تم بزدل ہو جاؤ گے اور تمھارا اقبال جاتا رہے گا اور صبر سے کام لو کہ اللہ صبر کرنے والوں کا مددگار ہے۔‘‘ یہاں پہلی ہدایت ثابت قدمی،دوسری بہ کثرت ذکرِ الٰہی اور تیسری ہدایت اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہے،ظاہر بات ہے ان نازک حالات میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نا فرمانی کتنی سخت خطرناک ہو سکتی ہے۔اس لیے ایک مسلمان کے
[1] تحرّف کے معنیٰ ہیں : ایک طرف پِھر جانا،یعنی لڑائی میں جنگی چال کے طور پر یا دشمن کو دھوکے میں ڈالنے کی غرض سے لڑتا لڑتا ایک طرف پھر جائے،دشمن یہ سمجھے کہ شاید یہ شکست خوردہ ہو کر بھاگ رہا ہے،لیکن پھر وہ ایک دم پینترا بدل کر اچانک دشمن پر حملہ کر دے۔یہ پیٹھ پھیرنا نہیں ہے،بلکہ یہ تحیّز کے معنیٰ،ملنے اور پناہ لینے کے ہیں،کوئی مجاہد لڑتا لڑتا تنہا رہ جائے تو لطیف انداز کے ساتھ میدانِ جنگ سے ایک طرف ہو جائے،تاکہ وہ اپنی جماعت کی طرف پناہ حاصل کرے اور اس کی مدد سے دوبارہ حملہ کرے۔یہ دونوں صورتیں جائز ہیں۔(احسن البیان،ص: ۴۰۱)