کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 198
گی۔کسی سپاہی کو اس میں سے کوئی چیز تقسیم سے قبل اپنے پاس رکھنے کی اجازت نہیں۔ اللہ کا لفظ تو بطور تبرک،نیز اس لیے ہے کہ ہر چیز کا اصل مالک وہی ہے اور حکم بھی اسی کا چلتا ہے،اللہ اور اس کے رسول کے حصے سے مراد ایک ہی ہے،یعنی سارے مالِ غنیمت کے پانچ حصے کرکے چار حصے تو ان مجاہدین میں تقسیم کیے جائیں گے،جنھوں نے جنگ میں حصہ لیا۔ان میں پیادہ کو ایک حصہ اور سوار کو تین گنا حصہ ملے گا۔پانچواں حصہ،جسے عربی میں ’’خُمس‘‘ کہتے ہیں،کہا جاتا ہے کہ اس کے پھر پانچ حصے کیے جائیں گے۔ایک حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ( اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسے مفادِ عامہ میں خرچ کیا جائے گا) جیسا کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ حصہ مسلمانوں پر ہی خرچ فرماتے تھے،بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بھی ہے:’’میرا جو پانچواں حصہ ہے،وہ بھی مسلمانوں کے مصالح پر ہی خرچ ہوتا ہے۔‘‘ دوسرا حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں کا،پھر یتیموں کا اور مسکینوں کا اور مسافروں کا ہے۔ 187۔دشمن کے مقابلے میں ثابت قدمی اور ذکرِ الٰہی: سورۃ الانفال (آیت:۴۵) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَ اذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ} ’’مومنو! جب (کفار کی) کسی جماعت سے تمھارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو بہت یاد کرو،تاکہ مراد حاصل کرو۔‘‘ یہاں مسلمانوں کو لڑائی کے وہ آداب بتائے جا رہے ہیں،جن کو دشمن کے مقابلے کے وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔سب سے پہلی بات ثباتِ قدمی اور استقلال ہے،کیوں کہ اس کے بغیر میدانِ جنگ میں ٹھہرنا ممکن ہی نہیں ہے،تاہم اس سے