کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 196
دے گا (تمھیں ممتاز کر دے گا) اور تمھارے گناہ مٹا دے گا اور تمھیں بخش دے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔‘‘ تقویٰ کا مطلب ہے اوامرِ الٰہی کی مخالفت اور اس کے مناہی کے ارتکاب سے بچنا اور فرقان کے کئی معنیٰ بیان کیے گئے ہیں،مثلاً:ایسی چیز جس سے حق و باطل کے درمیان فرق کیا جا سکے۔مطلب یہ ہے کہ تقوے کی بدولت دل مضبوط،بصیرت تیز تر اور ہدایت کا راستہ واضح تر ہو جاتا ہے،جس سے انسان کو ہر ایسے موقعے پر،جب عام انسان شک و شبہے کی وادیوں میں بھٹک رہے ہوں،صراطِ مستقیم کی توفیق مل جاتی ہے۔علاوہ ازیں فتح اور نصرت اور نجات و مخرج بھی اس کے معنیٰ کیے گئے ہیں،یہاں سارے ہی معانی مراد ہو سکتے ہیں،کیوں کہ تقوے سے یقینا یہ سارے ہی فوائد حاصل ہوتے ہیں،بلکہ اس کے ساتھ تکفیرِ سیئات،مغفرتِ ذنوب اور فضلِ عظیم بھی حاصل ہوتا ہے۔ 2۔سورۃ الحدید (آیت:۲۸) میں فرمایا ہے: {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہَ وَاٰمِنُوْا بِرَسُوْلِہٖ یُؤْتِکُمْ کِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِہٖ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ نُوْرًا تَمْشُونَ بِہٖ وَیَغْفِرْ لَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ} ’’مومنو! اللہ سے ڈرو اور اس کے پیغمبر پر ایمان لاؤ،وہ تمھیں اپنی رحمت سے دوگنا اجر عطا فرمائے گا اور تمھارے لیے روشنی کر دے گا،جس میں چلو گے اور تم کو بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ یہ دوگنا اجر ان اہلِ ایمان کو ملے گا،جو نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل بھی کسی رسول پر ایمان رکھتے تھے،پھر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لے آئے،جیسا کہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔[1]
[1] صحیح البخاري،کتاب العلم (۹۷) صحیح مسلم،کتاب التفسیر (۱۵۴)