کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 180
شہادت سے بہت سچی ہے اور ہم نے کوئی زیادتی نہیں کی،ایسا کیا ہو تو ہم بے انصاف ہیں۔اس طریق سے بہت قریب ہے کہ یہ لوگ صحیح شہادت دیں یا اس بات سے خوف کریں کہ (ہماری) قسمیں ان کی قسموں کے بعد رد کر دی جائیں گی اور اللہ سے ڈرو اور (اس کے حکموں کو توجہ سے) سنو اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ یہ اُس فائدے کا ذکر ہے،جو اِس حکم میں پنہاں ہے،جس کا ذکر یہاں کیا گیا،وہ یہ کہ یہ طریقہ اختیار کرنے میں اولیا صحیح صحیح گواہی دیں گے،کیوں کہ انھیں خطرہ ہوگا کہ اگر ہم نے خیانت یا دروغ گوئی یا تبدیلی کا ارتکاب کیا تو یہ کار روائیاں خود ہم پر الٹ سکتی ہیں۔اس واقعے کے سبب و شانِ نزول میں حضرت بدیل بن ابی مریم رضی اللہ عنہ کا واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ شام تجارت کی غرض سے گئے،وہاں بیمار اور قریب المرگ ہو گئے،ان کے پاس سامان میں ایک چاندی کا پیالہ تھا،جو انھوں نے دو عیسائیوں کے سپرد کرکے اپنے رشتے داروں تک پہنچانے کی وصیت کر دی اور فوت ہوگئے۔یہ دونوں وصی جب واپس آئے تو پیالہ تو انھوں نے بیچ کر پیسے آپس میں تقسیم کر لیے اور باقی سامان ورثا کو پہنچا دیا۔سامان میں ایک رقعہ بھی تھا،جس میں سامان کی فہرست تھی جس کی رو سے چاندی کا پیالا گم تھا،ان سے کہا گیا تو انھوں نے جھوٹی قسم کھا لی،لیکن بعد میں پتا چل گیا کہ وہ پیالہ انھوں نے فلاں صراف کو بیچا ہے۔چنانچہ انھوں نے ان غیر مسلموں کے مقابلے میں قسمیں کھا کر ان سے پیالے کی رقم وصول کی۔یہ روایت تو سنداً ضعیف ہے،تاہم ایک دوسری روایت صحیح بخاری[1] میں بھی ہے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مختصراً یہ واقعہ مروی ہے،جسے علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔[2]
[1] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۲۷۸۰) [2] صحیح سنن الترمذي (۳ / ۲۴۴۹)