کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 178
{یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ اِلَی اللّٰہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ} ’’اے ایمان والو! اپنی جانوں کی حفاظت کرو،جب تم ہدایت پر ہو تو کوئی گمراہ تمھارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا،تم سب کو اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے،اس وقت وہ تمھیں تمھارے سب کاموں سے جو (دنیا میں ) کیے تھے،آگاہ کرے گا (اور ان کا بدلہ دے گا)۔‘‘ بعض لوگوں کے ذہن میں ظاہری الفاظ سے یہ شبہہ پیدا ہوا کہ اپنی اصلاح اگر کر لی جائے تو کافی ہے۔امر بالمعروف و نہی عن المنکر ضروری نہیں ہے،لیکن یہ مطلب صحیح نہیں ہے،کیونکہ امر بالمعروف کا فریضہ بھی نہایت اہم ہے۔اگر ایک مسلمان یہ فریضہ ہی ترک کر دے گا تو اس کا تارک ہدایت پر قائم رہنے والا کب رہے گا؟ جب کہ قرآن نے ’’جب تم خود ہی ہدایت پر چل رہے ہو‘‘ کی شرط عائد کی ہے۔اس لیے جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے علم میں یہ بات آئی تو انھوں نے فرمایا:’’لوگو! تم آیت کو غلط جگہ استعمال کر رہے ہو،میں نے تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب لوگ برائی ہوتے ہوئے دیکھ لیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے عذاب کی گرفت میں لے لے۔‘‘ اس لیے آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ تمھارے سمجھانے کے باوجود اگر لوگ نیکی کا راستہ اختیار نہ کریں یا برائی سے باز نہ آئیں تو تمھارے لیے یہ نقصان دہ نہیں ہے،جب کہ تم خود نیکی پر قائم اور برائی سے مجتنب ہو۔ 101۔وصیت پر گواہی دینا: سورۃ المائدہ (آیت:۱۰۶۔۱۰۸) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا شَھَادَۃُ بَیْنِکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ