کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 150
چاہیے اور اگر مقتول ایسے لوگوں میں سے ہو جن میں اور تم میں صلح کا عہد ہو تو وارثانِ مقتول کو خون بہا دینا اور ایک مسلمان غلام آزاد کرنا چاہیے اور جس کو یہ میسر نہ ہو،وہ متواتر دو مہینے کے روزے رکھے۔یہ (کفارہ) اللہ کی طرف سے (قبولِ) توبہ (کے لیے) ہے اور اللہ (سب کچھ) جانتا (اور ) بڑی حکمت والا ہے۔‘‘ یہ قتل خطا کا جرمانہ بیان کیا جا رہا ہے،جو دو چیزیں ہیں۔ایک بطورِ کفارہ و استغفار ہے،یعنی مسلمان غلام کی گردن آزاد کرنا اور دوسری چیز بطورِ حق العباد کے ہے اور وہ ہے مقتول کے خون کے بدلے میں جو چیز مقتول کے وارثوں کو دی جائے۔دیت کی مقدار حدیث کی رو سے سو اونٹ یا اس کے مساوی قیمت سونے چاندی یا کرنسی کی شکل میں ہوگی۔ 69۔قتلِ عمد کی سزا: سورۃ النساء (آیت:۹۳) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَھَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ لَعَنَہٗ وَ اَعَدَّلَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا} ’’اور جو شخص مسلمان کو قصداً مار ڈالے گا تو اس کی سزا دوزخ ہے،جس میں وہ ہمیشہ (جلتا) رہے گا اور اللہ اس پر غضب ناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور ایسے شخص کے لیے اُس نے بڑا (سخت) عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘ خیال رہے کہ یہ قتلِ عمد ہے اور قتلِ عمد میں یہ نفی،نہی کے معنیٰ میں ہے جو حرمت کی دلیل ہے۔یعنی ایک مومن کو قتل کرنا ممنوع اور حرام ہے۔ قتل کی تین قسمیں ہیں۔قتلِ خطا،قتلِ شبہہ عمد اور قتلِ عمد،جس کا مطلب ہے،ارادے اور نیت سے کسی کو قتل کرنا اور اس کے لیے وہ آلہ استعمال کرنا،جس سے فی الواقع عادتاً قتل کیا جاتا ہے،جیسے تلوار،خنجر وغیرہ۔آیت میں کسی مومن کے قتل پر نہایت سخت وعید بیان کی گئی ہے۔مثلاً اس کی سزا جہنم ہے،جس میں ہمیشہ رہنا ہوگا،نیز اللہ کا غضب اور اس کی لعنت اور عذاب عظیم بھی ہوگا۔اتنی سزائیں بیک وقت