کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 143
آتا ہے کہ ’’وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا،جس کے دل میں رائی کے ایک دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا۔‘‘[1] یہاں تکبر کی بطورِ خاص مذمت سے یہ مقصد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور جن جن لوگوں سے حسنِ سلوک کی تاکید کی گئی ہے،اس پر عمل وہی شخص کرسکتا ہے جس کا دل تکبر سے خالی ہوگا۔متکبر اور مغرور شخص صحیح معنوں میں حقِ عبادت ادا کرسکتا ہے نہ اپنوں اور بیگانوں کے ساتھ حسنِ سلوک کر سکتا ہے۔ 63۔بوقتِ ضرورت تیمم کرنا: سورۃ البقرۃ (آیت:۴۳) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَ اِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی اَوْ عَلٰی سَفَرٍ اَوْجَآئَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآئَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ وَ اَیْدِیْکُمْ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا} ’’اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا کوئی تم میں سے بیت الخلا سے ہو کر آیا ہو یا تم عورتوں سے ہم بستر ہوئے ہو اور تمھیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی لو اور منہ اور ہاتھوں کا مسح (کر کے تیمم) کر لو،بے شک اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔‘‘[2] بیمار سے مراد وہ بیمار ہے،جسے وضو کرنے سے نقصان یا بیماری میں اضافے کا اندیشہ ہو۔مسافر عام ہے،لمبا سفر کیا ہو یا مختصر،اگر پانی دستیاب نہ ہو تو تیمم کرنے کی اجازت ہے۔پانی نہ ملنے کی صورت میں یہ اجازت مقیم کو بھی حاصل ہے۔ تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ ایک ہی مرتبہ ہاتھ زمین پر مار کر کلائی تک دونوں ہاتھ
[1] صحیح مسلم،رقم الحدیث (۹۱) [2] تفصیل کے لیے دیکھیں : منہاج المسلم (ص: ۳۱۳) فقہ الصلاۃ از ابو عدنان قمر (ج ۱)