کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 137
گے۔(یہ حصے بھی) بعد اداے وصیت و قرض بشرطیکہ اُن سے میت نے کسی کا نقصان نہ کیا ہو (تقسیم کیے جائیں گے) یہ اللہ کا فرمان ہے اور اللہ تعالیٰ نہایت علم والا (اور) نہایت حلم والا ہے۔‘‘ اولاد کی عدم موجودگی میں بیٹے کی اولاد یعنی پوتے بھی اولاد کے حکم میں ہیں،اس پر امت کے علما کا اجماع ہے۔ اسی طرح مرنے والے شوہر کی اولاد خواہ اس کی وارث ہونے والی موجودہ بیوی سے ہو یا کسی اور بیوی سے ہے۔اسی طرح مرنے والی عورت کی اولاد اس کے وارث ہونے والے موجودہ خاوند سے یا پہلے کسی خاوند سے۔ بیوی اگر ایک ہوگی تب بھی اسے چوتھا یا آٹھواں حصہ ملے گا،اگر زیادہ ہوں گی،تب بھی یہی حصہ ان کے درمیان تقسیم ہوگا،ایک ایک کو چوتھائی یا آٹھواں حصہ نہیں ملے گا۔ ’’کلالہ‘‘ سے مراد وہ میت ہے،جس کا باپ ہو نہ بیٹا اور اس کے بہن بھائی سے مراد اخیافی بہن بھائی ہیں،جن کی ماں ایک اور باپ الگ الگ،کیونکہ عینی بھائی بہن یا علاتی بہن بھائی کا حصہ میراث اس طرح نہیں ہے،جس کا بیان اس سورت کے آ خر میں آرہا ہے۔یہ مسئلہ بھی اجماعی ہے۔ کلالہ کے بہن بھائی ایک سے زیادہ ہونے کی صورت میں یہ سب ایک تہائی حصے میں شریک ہوں گے،نیز ان میں مذکر اور مونث کے اعتبار سے بھی فرق نہیں کیا جائے گا۔بلا تفریق سب کو مساوی حصہ ملے گا،مرد ہو یا عورت۔ میراث کے احکام بیان کرنے کے ساتھ ساتھ تین مرتبہ کہا گیا ہے کہ ورثے کی تقسیم،وصیت پر عمل کرنے اور قرض ادا کرنے کے بعد کی جائے،جس سے معلوم ہوتا ہے،ان دونوں باتوں پر عمل کرنا کتنا ضروری ہے۔