کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 135
ان دونوں لڑکیوں کو ان کے چچا سے دو تہائی مال دلوایا۔[1] ماں باپ کے حصے کی تین صورتیں بیان کی گئی ہیں: 1 پہلی صورت کہ مرنے والے کی اولاد بھی ہو تو مرنے والے کے ماں باپ میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا اور باقی دو تہائی مال اولاد پر تقسیم ہو جائے گا۔مرنے والے کی اگر صرف ایک بیٹی ہو تو نصف مال (چھے حصوں میں سے تین حصے) بیٹی کے ہوں گے اور ایک چھٹا حصہ ماں کو اور ایک چھٹا حصہ باپ کو دینے کے بعد مزید ایک چھٹا حصہ باقی بچ جائے گا،اس لیے بچنے والا یہ چھٹا حصہ بطورِ سربراہ باپ کے حصے میں جائے گا۔یعنی اس صورت میں باپ کو دو چھٹے حصے ملیں گے۔ایک باپ کی حیثیت سے اور دوسرا سربراہ ہونے کی حیثیت سے۔ 2 دوسری صورت یہ ہے کہ مرنے والے کی اولاد نہیں ہے (یاد رہے کہ پوتا پوتی بھی اولاد میں شامل ہیں ) اس صورت میں ماں کے لیے تیسرا حصہ اور باقی دو حصے (جو ماں کے حصے سے دو گنا ہیں ) باپ کو بطور عصبہ ملیں گے اور اگر ماں باپ کے ساتھ مرنے والے مرد کی بیوی یا مرنے والی عورت کا شوہر بھی زندہ ہے تو راجح قول کے مطابق بیوی یا شوہر کا حصہ (جس کی تفصیل آرہی ہے) نکال کر باقی ماندہ مال میں سے ماں کے لیے تیسرا حصہ اور باقی باپ کے لیے ہوگا۔ 3 تیسری صورت یہ ہے کہ ماں باپ کے ساتھ مرنے والے کے بھائی بہن زندہ ہیں،وہ بھائی چاہے سگے یعنی ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہوں اوراگر اولاد بیٹا یا بیٹی الگ باپ سے ہوں تو وراثت کے حق دار نہیں ہوں گے،لیکن ماں کے لیے حجب (نقصان کا سبب) بن جائیں گے یعنی جب ایک سے زیادہ ہوں
[1] سنن أبي داود،رقم الحدیث (۲۸۹۱) سنن الترمذي (۲۰۹۲) سنن ابن ماجہ (۲۷۲۰)