کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 134
فَلَھَا النِّصْفُ وَ لِاَبَوَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنْ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ فَاِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَہٗٓ اَبَوٰہُ فَلِاُمِّہِ الثُّلُثُ فَاِنْ کَانَ لَہٗٓ اِخْوَۃٌ فَلِاُمِّہِ السُّدُسُ مِنْم بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْ بِھَآ اَوْ دَیْنٍ اٰبَآؤُکُمْ وَ اَبْنَآؤُکُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ لَکُمْ نَفْعًا فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا} ’’اللہ تمھاری اولاد کے بارے میں تمھیں ارشاد فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے،اور اگر اولادِ میت صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زیادہ توکل ترکے میں اُن کا دو تہائی اور اگر صرف ایک لڑکی ہو تو اُس کا حصہ نصف اور میت کے ماں باپ کا یعنی دونوں میں سے ہر ایک کا ترکے میں چھٹا حصہ بشرطیکہ میت کے اولاد ہو اور اگر اولاد نہ ہو اور صرف ماں باپ ہی اُس کے وارث ہوں تو ایک تہائی ماں کا حصہ اور اگر میت کے بھائی بھی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ اور یہ (تقسیمِ ترکہ) میت کی وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو اُس نے کی ہو،یا قرض کے (ادا ہونے کے بعد جو اُس کے ذمے ہو عمل میں آئے گی) تم کو معلوم نہیں کہ تمھارے باپ دادوں اور بیٹوں پوتوں میں سے فائدے کے لحاظ سے کون تم سے زیادہ قریب ہے،یہ حصے اللہ کے مقرر کیے ہوئے ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘ بیٹا کوئی نہ ہو تو مال کے دو تہائی دو سے زائد لڑکیوں کو دیے جائیں گے اور اگر صرف دو ہی لڑکیاں ہوں،تب بھی انھیں دو تہائی حصہ ہی دیا جائے گا۔جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ غزوہ احد میں شہید ہو گئے اور ان کی لڑکیاں تھیں،مگر سعد رضی اللہ عنہ کے سارے مال پر ان کے بھائی نے قبضہ کر لیا تونبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے