کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 114
لگو تو اُس کو لکھ لیا کرو اور لکھنے والا تم میں (کسی کا نقصان نہ کرے بلکہ) انصاف سے لکھے،نیز لکھنے والا جیسا اُسے اللہ نے سکھایا ہے،لکھنے سے انکار بھی نہ کرے اور دستاویز لکھ دے اور جو شخص قرض لے وہی (دستاویز کا) مضمون بول کر لکھوائے اور اللہ سے جو اُس کا مالک ہے خوف کرے اور زرِ قرض میں سے کچھ کم نہ لکھوائے اور اگر قرض لینے والا بے عقل یا ضعیف ہو یا مضمون لکھوانے کی قابلیت نہ رکھتا ہو تو جو اُس کا ولی ہو وہ انصاف کے ساتھ مضمون لکھوائے اور اپنے میں سے دو مردوں کو (ایسے معاملے کے) گواہ کر لیا کرو اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جن کو تم گواہ پسند کرو (کافی ہیں ) کہ اگر ان میں سے ایک بھول جائے گی تو دوسری اسے یاد دلا دے گی اور جب گواہ (گواہی کے لیے) طلب کیے جائیں تو انکار نہ کریں اور قرض تھوڑا ہو یا زیادہ اُس (کی دستاویز) کے لکھنے لکھانے میں کاہلی نہ کرنا۔یہ بات اللہ کے نزدیک نہایت قرینِ انصاف ہے اور شہادت کے لیے بھی یہ بہت درست طریقہ ہے۔اس سے تمھیں کسی طرح کا شک و شبہہ نہیں پڑے گا۔ہاں اگر سودا دست بدست ہو جو تم آپس میں لیتے دیتے ہو تو اگر (ایسے معاملے کی) دستاویز نہ لکھو تو تم پر کچھ گناہ نہیں اور جب خرید و فرخت کیا کرو تو بھی گواہ کر لیا کرو اور کاتبِ دستاویز اور گواہ (معاملہ کرنے والوں کا) کسی طرح نقصان نہ کریں،اگر تم (لوگ) ایسا کرو تو یہ تمھارے لیے گناہ کی بات ہے اور اللہ سے ڈرو اور (دیکھو کہ) وہ تمھیں (کیسی مفید باتیں ) سکھاتا ہے اور اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔‘‘ جب سودی نظام کی سختی سے ممانعت اور صدقات و خیرات کی تاکید بیان کی