کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 111
{اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا وَ اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا } ’’جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قبروں سے) اس طرح (حواس باختہ) اٹھیں گے جیسے کسی کو جن نے چھو کر دیوانہ بنا دیا ہو۔یہ اس لیے کہ وہ کہتے ہیں کہ سودا بیچنا بھی تو (نفع کے لحاظ سے) ویسا ہی ہے جیسے سود (لینا) حالانکہ تجارت کو اللہ نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔‘‘ 2۔سورۃ البقرۃ (آیت:۲۷۶) میں فرمایا: {یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ اَثِیْمٍ} ’’اللہ سود کو نابود (بے برکت) کرتا اور خیرات (کی برکت)کو بڑھاتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے گناہ گار کو دوست نہیں رکھتاہے۔‘‘ 3۔سورۃ الروم (آیت:۳۹) میں فرمانِ الٰہی ہے: {وَ مَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًالِّیَرْبُوَاْ فِیْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِ وَ مَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَکٰوۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُضْعِفُوْنَ} ’’اور جو تم سُود دیتے ہو کہ لوگوں کے مال میں افزایش ہو تو اللہ کے نزدیک اس میں افزایش نہیں ہوتی اور جو تم زکات دیتے ہو اور اس سے اللہ کی رضا مندی طلب کرتے ہو تو (وہ موجبِ برکت ہے اور) ایسے ہی لوگ (اپنے مال کو) دو چند کرنے والے ہیں۔‘‘ یہ سود کے معنوی اور روحانی نقصانات اور صدقے زکات کی برکتوں کا بیان ہے۔سود میں بہ ظاہر بڑھو تری نظر آتی ہے،لیکن معنوی حساب سے یا انجام کے