کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 103
کو اُس کی اولاد کی وجہ سے نقصان پہنچایا جائے اور اسی طرح (نان و نفقہ) بچے کے وارث کے ذمے ہے اور اگر دونوں (ماں باپ) آپس کی رضا مندی اور صلاح مشورے سے بچے کا دودھ چھڑانا چاہیں تو اُن پر کچھ گناہ نہیں اور اگر تم اپنی اولاد کو دودھ پلوانا چاہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں،بشرطیکہ تم دونوں پلانے والیوں کو دستور کے مطابق اُن کا حق جو تم نے دینا کیا تھا دے دو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو،اللہ اُس کو دیکھ رہا ہے۔‘‘ اس آیت میں مسئلہ رضاعت کا بیان ہے۔اس میں پہلی بات یہ ہے کہ جو مدت رضاعت پوری کرنا چاہے تو وہ پورے دو سال دودھ پلائے۔ان الفاظ سے اس سے کم مدت تک دودھ پلانے کی بھی گنجایش نکلتی ہے۔دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ مدتِ رضاعت زیادہ سے زیادہ دو سال ہے۔ {مَوْلُودٌ لَّہٗ}سے مراد باپ ہے۔طلاق ہو جانے کی صورت میں شیرخوار بچے اور اس کی ماں کی کفالت کا مسئلہ ہمارے معاشرے میں بڑا پیچیدہ بن جاتا ہے اور اس کی وجہ شریعت سے انحراف ہے۔اگر حکم الٰہی کے مطابق خاوند اپنی طاقت کے مطابق مطلقہ عورت کی روٹی کپڑے کا ذمے دار ہو،جس طرح اس آیت میں کہا جارہا ہے تو نہایت آسانی سے یہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ ماں کو تکلیف پہنچانا یہ ہے کہ مثلًا ما ں بچے کو اپنے پاس رکھنا چاہے،مگر مامتا کے جذبے کو نظر انداز کرکے بچہ زبردستی اس سے چھین لیا جائے،یا بغیر خرچ کی ذمے داری اٹھائے اسے دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے۔باپ کو تکلیف پہنچانے سے مراد یہ ہے کہ ماں دودھ پلانے سے انکار کردے یا اس کی حیثیت سے زیادہ کا اس سے مالی مطالبہ کرے۔