کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات - صفحہ 100
کہ وہ اللہ کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو اگر عورت (خاوند کے ہاتھ سے) رہائی پانے کے بدلے میں کچھ دے ڈالے تو (دونوں پر) کچھ گناہ نہیں،یہ اللہ کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں،ان سے باہر نہ نکلنا اور جو لوگ اللہ کی حدوں سے باہر نکل جائیں گے وہ گنہگار ہوں گے۔‘‘ یعنی وہ طلاق جس میں خاوند کو عدت کے اندر رجوع کا حق حاصل ہے،وہ دو مرتبہ ہے۔پہلی مرتبہ طلاق کے بعد بھی اور دوسری مرتبہ طلاق کے بعد بھی رجوع ہو سکتا ہے۔تیسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد رجوع کی اجازت نہیں۔زمانہ جاہلیت میں یہ حق طلاقِ و رجوع غیر محدود تھا،جس سے عورتوں پر بڑاظلم ہوتا تھا۔آدمی بار بار طلاق دے کر رجوع کرتا رہتا تھا،اس طرح اسے بساتا تھا نہ آزاد کرتا تھا۔اللہ نے اس ظلم کا راستہ بند کر دیا اور پہلی یا دوسری مرتبہ سوچنے اور غور کرنے کی سہولت سے محروم بھی نہیں کیا۔ورنہ اگر پہلی مرتبہ کی طلاق ہی میں ہمیشہ کے لیے جدائی کا حکم دے دیا جاتا تو اس سے پیدا ہونے والے معاشرتی مسائل کی پیچیدگیوں کا اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے ’’طَلْقَتَانِ‘‘ ’’دو طلاقیں ‘‘ نہیں فرمایا بلکہ{اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ}’’طلاق دو مرتبہ‘‘ فرمایا ہے،جس سے اس بات کی طرف اشارہ فرما دیا کہ بیک وقت دو یا تین طلاقیں دینا اور انھیں بیک و قت نافذ کر دینا حکمتِ الٰہی کے خلاف ہے۔حکمت الٰہی اسی بات کی مقتضی ہے کہ ایک مرتبہ طلاق کے بعد (چاہے وہ ایک ہو یا کئی ایک) اور اسی طرح دوسری مرتبہ طلاق کے بعد (چاہے وہ ایک ہو یا کئی ایک) مرد کو سوچنے سمجھنے اور جلدبازی یا غصے میں کیے گئے کام کے ازالے کا موقع دیا جائے۔یہ حکمت ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک طلاق رجعی قرار دینے ہی