کتاب: قرآن مجید کی تعلیم اور تجوید کا صحیح طریقہ - صفحہ 43
جسارتوں وگستاخیوں پر صبر کرے۔ ٭ دوران قرأت طالبہ کی طرف توجہ ہو۔ معلم کو چاہیے کہ وہ دوران قرأت طالبہ ک طرف متوجہ ہو کر بیٹھے، اس سے اعراض نہ کرے، کسی سے گفتگو نہ کرے اور اپنے ہاتھوں سے نہ کھیلے۔ یہ اہل قرآن کا اخلا ہے۔ کیونکہ ان لغو امور سے طالبہ کا اپنے سلف میں اہتمام کمزور پڑ جاتا ہے اور عزیمت جاتی رہتی ہے۔ ٭ ایک وقت میں ایک سے زائد طالبہ کا نہ سنے کیونکہ یہ طرز عمل حسنِ تعلم اور تصحیح قرأت میں بہت بڑے خلل کا سبب بنتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {مَا جَعَلَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِہٖ} (الاحزاب: 4) ’’کسی آدمی کے سینے میں اللہ نے دو دل نہیں رکھے۔‘‘ اگرچہ تلقین میں کچھ گنجائش نکالی جا سکتی ہے کہ ایک ہی وقت میں پوری کلاس کو تلقین کی جا رہی ہو اور پڑھایا جا رہا ہو۔ ٭ غلطی پر نرمی کرنا۔ معلمہ کو چاہیے کہ وہ قاریہ کی غلطی پر سختی نہ کرے، اور اس کا مذاق یا استہزاء اڑانے سے بہت زیادہ اجتناب کرتے۔ کیونکہ استہزاء نفرت کا سبب بنتا ہے۔ ممکن وہ طالبہ دوبارہ حلقہ قران میں آتے ہی نہ۔ ٭ طالبات سے خدمت لینے اجتناب کرنا۔ معلمہ کو چاہیے کہ وہ طالبات سے جسمانی، مالی یا کسی بھی قسم کی خدمت کا مطالبہ نہ کرے اور سختی سے اجتناب کرے۔ امام آجری فرماتے ہیں: قاری قرآن کو چاہیے کہ وہ اپنے مکدوزہ سے کسی بھی قسم کی خدمت کا مطالبہ نہ کرے، ورنہ اس سے اہل قرآن کا اجر ضائع ہو جانے کا اندیشہ ہے۔