کتاب: قرآن مجید کی تعلیم اور تجوید کا صحیح طریقہ - صفحہ 30
{فَاِِذَا قَرَاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ} (القیامۃ: 18)
"پس جب ہم اسے پڑھ رہے ہوں، تم اسے غور سے سنتے رہو۔"
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیّدنا جبریل علیہ السلام سے خاموش کے ساتھ وحی الٰہی سنتے تھے، جب وحی مکمل ہو جاتی تو اپ اس کی تلاوت کرتے اور سیّدنا جبریل اسے سنتے، آپ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی قرآن مجید اس طریق پر سکھایا۔
خاموشی کے فوائد:
1۔ خاموشی کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت سننا معلم اور متعلّم کہتے ایک بلند پایہ ادب سے اور سلف صالحین کی عادات میں سے ہے۔ سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:
((إقرأ علی القرآن۔))
’’مجھ پر قرآن پڑھو۔‘‘
میں نے عرض کیا: میں آپ پر پڑھوں، حالانکہ آپ پر نازل کیا گیا ہے؟
آپ نے فرمایا:
((أحب أن أسمعہ من غیری۔))
’’میں اپنے علاوہ کسی دوسرے سے سننا پسند کرتا ہوں۔‘‘
2۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((من استمع إلی کتاب اللّٰہ کتبت لہ حسنۃ مضاعفۃ، ومن تلاہا کانت لہ نوراً یوم القیامۃ۔))
’’جس شخص نے غور سے کتاب اللہ کو سنا، اس کے لیے کئی گنا اجر لکھ دیا جاتا ہے، اور جس نے اس کی تلاوت کی، وہ اس کے لیے بروزِ قیامت نور ہو گا۔‘‘
3۔ اہل علم کا خیال ہے کہ خاموشی سے سننا حفظ والتقان کے وسائل میں سے ایک اہم ترین وسیلہ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا حکم دیا ہے، جیسا کہ سابقہ آیات