کتاب: قرآن مجید کی تعلیم اور تجوید کا صحیح طریقہ - صفحہ 24
کسی اپنا نائب مقرر کیا ہے؟ تو انہوں ہے جواب دیا: ابن بزی کو! سیّدنا عمر نے پوچھا: ابن بری کون ہے؟ انہوں نے کہا: ہمارے غلاموں میں سے ایک غلام ہے۔ سیّدنا عمر نے فرمایا: کیا آپ نے غلام کو نائب مقرر کر دیا ہے؟ آپ نے کہا: وہ غلام قرآن مجید کا قاری اور فرائض کا عالم ہے۔ یہ سن کر سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
((إن اللّٰہ یرفع بہذا القرآن أقوامًا، ویضع بہ آخرین۔))
’’بے شک اللہ تعالیٰ اس قرآن کے ذریعے بعض اقوام کو سر بلند کر دیتے ہیں اور دیگر سرنگوں کر دیتے ہیں۔‘‘
8۔ قرآن مجید کی تعلیم دینا فرض کفایہ ہے۔ اگر بعض لوگ اس کی بجا آوری کہتے اٹھ کھڑے ہوں تو باقیوں سے ساقط ہو جاتا ہے۔
امام الحرمین جوینی فرماتے ہیں:
((إن فرض الکفایۃ أفضل من فرض العین، حیث أن فاعلہ یسد مسد الأمۃ، ویسقط الحرج عن الأمۃ،ص أما فرض العین قاصر علیہ فحسب۔))
’’فرض کفایہ کی ادائیگی فرض عین سے بھی افضل ہے۔ کیونکہ اس کی ادائیگی کرنے والا پوری امت کی نمائندگی کرتا ہے اور اس سے حرج (گناہ) کو رفع کر دیتا ہے۔ جبکہ فرض عین فقط اپنی ادائیگی تک محدود رہتا ہے۔‘‘
9۔ اہل علم فرماتے ہیں:
((إن نقع تعلیم القرآن من النفع المتعدی۔))
’’تعلیم قرآن کا نفع، متعدی نفع ہے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((من علّم علماً فلہ أجر من عمل بہ، لا ینقص من أجر