کتاب: قرآن مجید کی تعلیم اور تجوید کا صحیح طریقہ - صفحہ 23
الدنیا فان منزلتک عند آخر آیۃ تقرئہا۔)) [1]
’’قاری قرآن سے کہا جائے گا: پڑھتے جاؤ اور جنت کے مراتب چڑھتے جاؤ، اور اس طرح ترتیل سے پڑھو، جس طر دنیا میں پڑھتے تھے۔ جنت میں تیسرا مقام تیسری پڑھی گئی آخری آیت کے پاس ہوگا۔‘‘
5۔ انسان کا ایمان زیادہ ہو جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَالَّذِیْنَ اہْتَدَوْا زَادَہُمْ ہُدًی وَآتَاہُمْ تَقْواہُمْ} (محمد: 17)
’’اور جو لوگ ہدایت ہافتہ ہیں، اللہ نے انہیں ہدایت میں اور زیادہ کر دیا ہے اور نہیں ان کی پرہیز گاری عطا فرمائی ہے۔‘‘
سیّدنا جندب بن خبادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
((کنا غلمان مزاورہ ’’ای قاربنا البلوغ‘‘ عند رسول اللّٰہ، فتعلمنا الایمان قبل أن نتعلم القرآن۔ فازدد نابہ ایماناً۔))
’’ہم قریب البلوغ لڑکے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھے۔ ہم نے آپ سے قرآن سے پہلے ایمان سیکھا اور پھر قرآن کے ذریعے اپنے ایمان کو زیادہ کر لیا۔‘‘
6۔ امامت میں اولیت کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
((یؤم القوم أقرأہم لکتاب اللّٰہ۔))
’’قوم کو ان میں سے سب سے بڑا قاری امامت کروائے۔‘‘
7۔ دنیا وآخرت دونوں جہانوں میں عظمت ورفعت حاصل ہوئی ہے۔ سیّدنا عامر بن واثلہ فرماتے ہیں کہ نافع بن حارث حج کے لیے رستے میں جار رہے تھے کہ اچانک امیر المؤمنین سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے آمنا سامنا ہو گیا۔ انہیں سیّدنا عمر نے اہل مکہ کا گورنر مقرر کر رکھا تھا۔ سیّدنا عمر نے پوچھا: آپ نے مکہ میں
[1] ! أخرجہ أحمد وابن حبان والترمذی والحاکم من حدیث عبداللّٰہ بن عمرو وإسنادہ حسن۔