کتاب: قرآن مجید کی تعلیم اور تجوید کا صحیح طریقہ - صفحہ 127
اَمَّا یُشْرِکُوْنَ} (النمل: 59) یہاں لام فتحہ حقیقی کے بعد واقع نہیں ہے، بلکہ ابدال وجہ میں الف سے ہمزہ مبدلہ کے بعد اور تسہیل والی وجہ میں ہمزہ مسہلہ کے بعد واقع ہے۔ اس طرح اگر لفظ جلالہ کا لام، ضہ کے بعد واقع ہو تو بھی موٹا ہوگا، جیسے: {مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ} (الفتح: 29) اس طرح اگر لفظ جلالہ سے ابتداء کی جائے تو بھی اس کا لام موٹا ہوگا، کیونکہ معروف بالعدم کلمات میں ہمزہ وصلی مفتوح کے ساتھ ابتداء کی جاتی ہے اور فتح نفتیحہ لام کا سبب ہے۔ جیسے: {اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ} (البقرۃ: 255) ٭ ملاحظات: [1]… اگر لفظ جلالہ سے پہلے لام واقع ہو اور لفظ جلالہ کے لام کو باریک پڑھا جا رہا ہو تو ہم دیکھتے ہیں کہ لفظ جلالہ سے پہلے والے لام کو بہت زیادہ باریک کر دیا جاتا ہے۔ جیسے: ((وجعلوا لِلّٰہ)) [2]… لفظ جلالہ ((اللّٰه)) کا ہمزہ وصلی ہمیشہ مفتوح ہوتا ہے، کیونکہ وہ اسماء کے لام تعریف پر داخل ہے۔ [3]… {إن اللّٰہ غفور رحیم} جیسے کلمات میں لفظ جلالہ کی ہاء کو موٹا پرھنے سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ یہ ایک ایسی غلطی ہے جو اکثر قراء سے واقع ہوتی ہے۔ علامہ ابن جزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وتفحم الام من اسم اللّٰہ عن فتح أوضم کعبداللّٰہ [1]… لفظ جلالہ کے لام اور ہاء کے درمیان الف مدہ (لفظاً نہ کہ خطاً) موجو دہے۔ اس میں وصلاً مد طبعی کے اعتبار سے دو حرک مد کی جاتی ہے۔ جبکہ وقفاً مد عارض وقفی کے اعتبار سے دو، چار، اور چھ حرکات مد کی جاتی ہے۔ اور اداء میں چھ حرکات اشباع مقدم ہے۔