کتاب: قرآن مجید کے حقوق - صفحہ 9
کتابچہ لکھنے کا مقصد
قرآن مجید ہدایت و نور کا سرچشمہ ہے اور زندگی کے جملہ معاملات کا حل ہے جو اس کے حقوق کو پورا کرنے کے بغیر ممکن نہیں۔ آج کل کے مادہ پرست دور میں ہر شخص افراط و تفریط کا شکار نظر آتا ہے کوئی اس کی تلاوت پر ہی سالہا سال لگا کر اسی پر قانع ہو جاتا ہے اور حقیقت قرآن صرف تلاوت کرنے اور اس کے متنوع لہجات کے حصول کو سمجھتا ہے دوسرا اس کی تلاوت سے اپنی کم علمی وجہالت کی وجہ سے دور ہے پھر اس محرومی کی آگ مخالفت کرکے اُگلتا ہے تیسرا سرے سے ہے ہی منکر ہے کہ ایمان لانا تو یہ ہے کہ قرآن کو قرآن پاک کہہ دیا اور غلاف میں بند کرکے اونچی جگہ پر سجا دیا، چوتھا اسی قرآن کو نہ پڑھتا ہے نہ عمل کرتا ہے بلکہ اس کا ایمان اور اس کی کاوشیں اپنے من پسند گھڑے ہوئے اُصولوں کے لیے قرآن مجید سے دلائل تلاش کرتا ہے اور عقل و خرد کی گتھیاں سلجھاتا ہے اور پانچواں صرف دعوت یا جہاد کا لفظ ہی جانتا ہے اورپوری زندگی اسی میں کھپانے کا عزم کیے ہوئے ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر اس کا ایمان ہی نہیں کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور یہ محفوظ ومصون تمام اوصاف (متن و مدعا کے تمام گوشوں) کے ساتھ ہم تک پہنچا ہے تو پھر اس کا تعلیم دینا، دعوت دینا، جہاد کرنا کہاں ثمر آور ہو سکتا ہے کیونکہ اسی تعلیم دعوت و جہاد کا مصدر تو قرآن مجید ہے تو اگر اصل ہی ناقص ہے (نعوذ باللہ) تو پھر فرع کا کیا اعتبار۔ اسی طرح ایمان کے بعد وہ خود اس کوپڑھتا نہیں اور سمجھتا نہیں تو پھر وہ کسی کو کیسے تبلیغ کر سکتا ہے اسی طرح تلاوت پر ہی زور دیتا رہے اور نمازوں کا چور رہے، داڑھی کا چور رہے، دھوکے بھی دے تو عمل کے بغیر تو اس کا ایمان ہی متحقق نہیں ہوگا چہ جائیکہ وہ تلاوت کوہی اصل سمجھ کر قانع ہو کر بیٹھا ہے جب تلک وہ دعوتی میدان میں قرآن مجید کا اسلوب اور نبوی اسلوب سامنے نہیں رکھے گا، اس کو کامیابی ممکن