کتاب: قرآن مجید کے حقوق - صفحہ 85
کے پاس قرآن مجید پڑھتے ‘‘…اور عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں عشاء کے بعد اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کچھ لیٹ ہو گئی تو جب گھر آئی تو اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کہاں تھی ؟ تو میں نے کہا کہ میں آپ کے ساتھیوں میں سے ایک کی آواز سن رہی تھی اس کی قراء ت وآواز جیسی کسی کی نہیں سنی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور میں بھی۔ پھر اسے جا کر غور سے سنا اور میری طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے یہ سالم مولیٰ ابی حذیفہ ہے اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس نے میری اُمت میں ایسے شخص بھی پیدا کیے ہیں۔ [1] عبدالرحمن بن سائب فرماتے ہیں کہ سعد بن أبی وقاص ہمارے پاس آئے اور ان کی آنکھوں کی بینائی جا چکی تھی تو میں نے ان کو سلام کیا تواُنھوں نے پوچھا کون ہو تم ؟ تو میں نے بتلایا توکہنے لگے: ((مَرْحَبًا بِاِبْنِ أَخِیْ بِالْغِنٰی أَ نَّکَ حَسَنَ الصَّوْتِ بِالْقُرْآنِ۔)) ’’خوش آمدید اے میرے بھتیجے! میں نے سنا ہے کہ آپ کی قرآن کی تلاوت بڑی حسین ۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ قرآن کو جو تغنی سے نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں[2] اسی لیے عمر رضی اللہ عنہ ((کَانَ یُقَدِّمُ الشَّابَ الْحَسَنَ الصَّوْتَ لِحُسْنِ صَوْتِہِ بَیْنَ یَدِیِ الْقَوْمِ ))[3]’’نوجوان کو اس کی اچھی آواز کی وجہ سے قوم کے سامنے مقدم کرتے تھے (یعنی وہ امامت کرواتا تھا ) ‘‘…حتیٰ کہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے علماء سلف و خلف کا اجماع نقل کیا ہے کہ صحابہ و تابعین و علماء امصارتک سب متفق ہیں کہ قرآن مجید کو اچھی آواز کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے۔[4] اور ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ((أَمَّا تَحْسِیْنُ الصَّوْتِ وَتَقْدِیْمُ حَسْنِ الصَّوْتِ عَلٰی غَیْرِہٖ فَلَا
[1] ابن ماجہ :1338 وتحفۃ الأشراف:16303۔ [2] ابن ماجہ: 1337۔ [3] فتح الباری: 9/116۔ [4] التبیان:87 وفتح الباری: 9/91۔