کتاب: قرآن مجید کے حقوق - صفحہ 84
بھی حسن صوت سے پڑھتے تھے اور خود اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہتے کہ مجھے سناؤ جیسا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو کہا تو وہ فرمانے لگے : اے اللہ کے رسول ! میں سناؤں اور قرآن مجید تو آپ پر نازل ہوا ہے تو اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنِّیْ أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَہٗ مِنْ غَیْرِیْ۔))’’میں چاہتا ہوں (پسند کرتا ہوں ) کہ اپنے علاوہ کسی دوسرے سے سنوں ‘‘…پھر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے سنایا[1] اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے تو ایک آدمی کی قراء ت سنی تو فرمانے لگے کہ یہ کون ہے ؟ تو کہا گیا کہ یہ عبداللہ بن قیس ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَقَدْ أُوْتِیَ ہٰذَا مِنْ مَزَامِیْرِ آلِ دَاؤٗدَ۔))[2] ’’ یہ شخص مزامیر آل داؤد دیا گیا ہے۔ ‘‘ یعنی داؤد علیہ السلام کی آل کی بانسریاں، خوداؤد علیہ السلام بھی تغنی کے ساتھ پڑھتے خود بھی روتے اور رلاتے اور زبور کو 70 لحنوں (لہجوں ) میں پڑھتے تھے[3] اور اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو پڑھتے سنا تو ان کو فرمایا کہ میں رات کو تیری قراء ت سن رہا تھا۔ ((لَقَدْ أُوْتِیْتُ مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِیْرِ آلِ دَاؤُدَ۔))[4] ’’تو تو آل داؤد کی مزامیر میں سے مزمار (بانسری) دیا گیا ہے۔ ‘‘ تو وہ فرمانے لگے کہ اگر مجھے پتہ چل جاتا تو ((لَحَبَّرتُہٗ لَکَ تَحْبِیْرًا۔))[5]’’اور زیادہ حسین پڑھتا ‘‘…اور عمر رضی اللہ عنہ جب بھی ابو موسیٰ اشعری کو دیکھتے تو کہتے : ((ذَکِّرْنَا رَبَّنَا یَا أَبَا مُوْسٰی فَیَقْرَأْ عِنْدَہٗ۔))[6]’’اے ابوموسیٰ ! ہمارے رب کی یاد تازہ کرو تو پھر وہ ان
[1] البخاری: 5049، 5050، و مسلم: 800۔ [2] مسلم: 235،793 وابن ماجہ: 1341 والتحفۃ:15119۔ [3] فتح الباری: 9/90۔ [4] البخاری: 5048، ومسلم: 793،236 والترمذی : 3864۔ [5] فتح الباری: 9/116۔ [6] الدارمی: 3494،3397۔