کتاب: قرآن مجید کے حقوق - صفحہ 78
فَلْیَحْرِصِ السَّعِیْدَ فِیْ تَحْصِیْلِہٖ وَلَا یَمُلُّ قَطُّ مِنْ تَرْتِیْلِہٖ ’’سادت مند اس کی تحصیل میں حرص کرتا ہے اور اس کی ترتیل سے کبھی بھی نہیں اکتاہٹ محسوس کرتا۔ ‘‘ اور یہی بار بار پڑھنا ہی (مشق کرنا، تدریب کرنا) قاری اور غیر قاری کا فرق ہے جیسا کہ ابن الجزری فرماتے ہیں : وَلَیْسَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ تَرْکِہِہٖ إِلَّا رِیَاضَۃُ امْرِیئٍ بِفَکِّہٖ ’’قاری اور غیر قاری کے درمیان فرق صرف منہ کی ریاضت (مشق کا ہے۔ ‘‘ لیکن افسوس ہے کہ خود تو تجوید و ترتیل ہم حاصل کرتے نہیں بلکہ جنھوں نے حاصل کی ہے یا کر رہے ہوتے ہیں ان کو طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے ہیں واقعی کسی نے خوب کہا تھا : ((اَلْقَارِیِ بِالتَّجْوِیْدِ مُحْسِنٌ مَاجُوْرٌ وَمُخَالِفُہٗ إِمَّا مُسِی ئٌ مَأْزُوْرٌ أَوْ مُقَصَّرٌ مَغْرُوْرٌ أَوْ ضَعِیْفٌ مُتَعْتِعٌ مَعْذُوْرٌ))’’قاری قرآن مجید کو تجوید سے پڑھنے والا محسن ہے اور اجر پانے والا ہے اور علامہ جزری فرماتے ہیں: ((مَنْ یُحْسِنُ التَّجْوِیْدِ یَظْفُرُ بِالرُّشْدِ))جو اچھی طرح تجوید میں ماہر ہوگا وہ ہدایت پائے گا اور اس کا مخالف تین حال سے خالی نہیں۔ ٭ وہ گنہگار ہے اورغلط آدمی ہے (کیونکہ وہ قاری نہیں بلکہ سیدھا قرآن سے ہی بغض رکھتا ہے۔) ٭ یاوہ متکبر ہے اور خود یہ نہیں سیکھتا تو اس لیے مخالفت کرتا ہے کیونکہ مَنْ جَہَلَ شَیْئًا عَادَاہٗ جو جس چیز سے جاہل ہو اس سے عداوت رکھتا ہے اپنے تکبر واَنا کی وجہ سے سیکھتا نہیں پھر اس محرومی کو مخالفت کی آگ کا لبادہ پہناتا ہے۔ ٭ یا وہ کمزوری ہے اور اس کی زبان اٹکتی ہے تو اس کا عذر ہے اس کی یہ مخالفت ایک عذر کی