کتاب: قرآن مجید کے حقوق - صفحہ 77
یہ تمھارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ) تو میرے محترم بھائی ! قرآن مجید تو کیا نماز کی دعائیں بھی خراب ہوتی ہیں مثلاً وتبارک اسمک ہم دعاء استفتاح پڑھتے ہیں جس کا معنی ہے تیرا برکت والا نام ہے (اے اللہ )اور اکثر سین کو ثا پڑھتے ہیں اثمک تو معنی یہ بن گیا برکت والا گناہ ہے (اے اللہ) (أعوذ باللہ) کیا ہم یہ اللہ تعالیٰ کی تعریف کر رہے ہیں یا برائی بیان کر رہے ہیں۔ تو میرے محترم ! قرآن مجید کو ترتیل کے ساتھ (تجوید کے ساتھ ) پڑھنا اس لیے ضروری ہے اور نہ پڑھنے والے کو گناہ ہوگا۔ لیکن اس کے لیے ضرور ی نہیں کہ وہ قواعد اور قانون دوسال میں یاد کرے بلکہ یہ قواعد اصل مقصود نہیں اصل مقصود تو وہ کیفیت ہے جس کیفیت پر قرآن مجید نازل ہوا، وہ ترتیل کی کیفیت ہے جو کہ بغیر استاد کے ممکن نہیں، اس لیے کہ جو شخص استاد سے نہیں پڑھتا بلکہ خود ہی قرآن پڑھتا ہے وہ صحیح نہیں پڑھ سکتا جیسا کہ علامہ الحسینی ’’ القول السدید فی بیان حکم التجوید‘‘ میں فرماتے ہیں : مَنْ یَأْخُذُ الْعِلْمَ عَنْ شَیْخٍ مُشَافَہَۃً یَکُنْ عَنِ الزَّیْغِ وَالتَّصْحِیْفِ فِیْ حَرَمٍ وَمَنْ یَکُنْ آخِذًا لِلْعِلْمِ مِنْ صُحُفٍ فَعِلْمُہٗ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ کَالْعَدْمِ [1] ’’جو شخص کسی شیخ سے تلقی کے ساتھ (منہ در منہ، آمنے سامنے ) علم حاصل کرتا ہے اس کا علم ٹیڑھ پن اور تحریف سے محفوظ رہتا ہے اور جو شخص صحائف (کتابوں) سے علم حاصل کرتا ہے اس کا علم اہل علم کے نزدیک نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ ‘‘ اس لیے سعادت مند وہ ہے جو قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھتا ہے جیساکہ ابن الجزری فرماتے ہیں :
[1] القول السدید فی بیان حکم التجوید، ص : 50۔