کتاب: قرآن مجید کے حقوق - صفحہ 76
علامت ہے ختنہ کرنا، دوسری طرف ہم اس کو شیطانی فعل صرف اپنی جہالت کی بناء پر بنا رہے ہیں۔ ٭ اسی طرح قرآن مجید میں حکم رَبانی ہے {فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ} (الکوثر:2)’’پس اے محمد! تو اپنے رب کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر ‘‘ اگر وَانْحَرْ جو کہ نَحَرَ سے ہے جس کامعنی قربانی کرنا ہے اس کو حال کی بجائے موٹا پڑھ دیا تو وہ ہو جائے گی نَہَرَسے تو معنی ہو جائے گا کہ اے محمد تو اپنے رب کے لیے نمازپڑھ اور ڈانٹ۔ ٭ اسی طرح ہم صبح و شام تینوں قل ( سورۃاِخلاص، والفلق، والناس) پڑھتے ہیں {قُلْ ہُوَاللّٰہُ أَحَدٌ} جس کا معنی یہ ہے کہ ’’کہو اللہ ایک ہے ‘‘ لیکن اگر ہم نے قل کے قاف کو باریک کر دیا تو یہ کل بنجائے گا جس کامعنی یہ ہو جائے گا کہ کھاؤ وہ اللہ ایک ہے۔ ٭ اسی طرح اگر ترتیل و تجوید کی معرفت نہ ہو تو آیات قرآنی پر وقف ایسا ہوتا ہے کہ معنی خراب ہوتا {یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ} (النسائ:43)پر وقف کریں تو معنی یہ ہوتا ہے کہ ’’اے ایمان والو ! نماز کے قریب نہ جاؤ ‘‘…حالانکہ نماز نہ پڑھنے والا کافر ہے تو یہاں وقف نہیں کرنا ہوگا، بلکہ ہر آیت پر کریں یا جہاں معنی پورا ہوتا ہو جیسا کہ یہاں آگے آیت کا تکملہ ہے {وَأَنْتُمْ سُکَارَیٰ}’’جب تم نشے میں ہو ‘‘…تو اوقاف کی کی معرفت ترتیل وتجوید کے بغیر ناممکن ہے اور بسااوقات وقف کرنا ہوتا ہے ہم نہیں کرتے، بلکہ وصل کرتے ہیں مثلاً :{وَ لَا یَحْزُنْکَ قَوْلُہُمْ اِنَّ الْعِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا} (یونس:65)کو اگر اکٹھا پڑھیں تو اس کامعنی یہ ہوگا کہ اے نبی ! تم کو ان (مشرکوں و کافروں) کی یہ باتیں غم میں نہ ڈالیں کہ ساری عزت اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ حالانکہ یہی تو لڑائی تھی کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کوعبادت کے لیے نہیں سمجھتے تھے اس کے شریک بناتے تھے لیکن یہ معنی کب پیدا ہو ا جب ہم نے ملا کر پڑھا۔ اس لیے قولہم پر ٹھہرنا لازمی اور ضروری ہے پھر آگے پڑھیں تو معنی یہ ہوگا کہ تمھیں ان کی باتیں غم میں نہ ڈالیں۔ ساری عزت تو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے (وہی تمھیں عزت دے گا