کتاب: قرآن مجید کے حقوق - صفحہ 75
٭ مثلاً ہم نماز پڑھتے ہیں تو کہتے ہیں: اللّٰہ اکبر اللہ بہت بڑا ہے، لیکن اگر نانی اماں والا اور فلاں خالہ جی کا پڑھا ہوا ہو تو وہ اکبر کے کاف کو اقبر موٹا کر دیتا ہے جس کا معنی یہ بنتا ہے کہ اللہ نے قبر کھودی تو ظاہر ہے نعوذ باللہ یہ اللہ کی توہین ہے اور نماز کیسے سلامت رہے گی۔ ٭ پھر نماز میں ہم کہتے ہیں (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ) جس کامعنی ہے تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں لیکن اگر اس حا کو تھوڑا سا تکاسل و امہال سے ھا پڑھ دیا (الہَمْد) تو اس کا معنی یہ ہو جائے گا کہ آگ کی حرارت کا ختم ہونا اللہ تعالیٰ کے لیے ہے تو یہ معنی اللہ تعالیٰ کو مقصود ہی نہیں۔ ٭ اسی طرح قرآن مجید میں ہم پڑھتے ہیں {اِنَّ اللّٰہَ عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ} (البقرۃ:20)’’اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے ‘‘…اگر ہم نے قدیر کی قاف کو باریک کر دیا تو یہ قاف کاف بن جائے گاجس کا معنی یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر کدورت رکھنے والا ہے اور یہ بندوں کی صفت ہے اللہ تعالیٰ ایسی گندی صفات سے منزہ ہے، مبراہے۔ ٭ اسی طرح قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ جہنمیوں کے بارے میں فرماتے ہیں:{ وَّ نُدْخِلُہُمْ ظِلًّا ظَلِیْلًا} (النساء : 57) ’’ہم (جنتیوں ) کو گھنے ساؤں میں داخل کریں گے ‘‘ … اگر اس ظاکو موٹا نہ پڑھا باریک پڑھ دیا تو معنی ہوگا (ذلا ذلیلا) ہم جنتیوں کو بڑی ذلالتوںمیں داخل کریں گے۔ ‘‘ ٭ اسی طرح قرآن کریم میں اِرشاد ہے : {اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ o } (الإسرائ:27) ’’بے شک فضول خرچ شیطان کے بھائی ہیں۔ ‘‘ اب اگرا لمبذرین کی ذال کو موٹا پڑھ دیں تو یہ ظا بن جائے گی جس کامعنی یہ ہوگا کہ ختنے کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔ ذرا سوچیں ایک تو قرآن کامفہوم غلط ہوا اور دوسرا فطرت کی دس چیزوں میں سے ایک ختنہ کرنا بھی ہے تو ایک طرف تو فطرت کی