کتاب: قرآن مجید کے حقوق - صفحہ 73
’’ابن مسعود رضی اللہ عنہ ایک آدمی کو پڑھایا کرتے تھے تو ایک آدمی نے پڑھا {إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَائِ وَالْمَسَاکِیْنِ}اور بغیر مد کے (للفقرائ) کو پڑھا تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں پڑھایا تھا تو اس آدمی نے عرض کیا کہ پھر کیسے پڑھایا تھا ؟ تو فرمانے لگے: {إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَائِ وَالْمَسَاکِیْنِ} (کو پڑھ کر سنایا ) اور (للفقرائ) میں مد کی۔ ‘‘ (اس روایت کو طبرانی نے معجم الاوسط اور کبیر میں اور ابن مردویہ نے اور سعید بن منصور نے اپنی سنن میں نقل کیا ہے اور محدث الالبانی نے صحیح قرار دیا ہے ) تو انھیں دلائل وبراہین کو سامنے رکھ کر (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں جو قرآن مجید ترتیل سے پڑھاجاتا تھا ) علماء نے ایک علم کی بنیاد رکھی جس کا نام علم تجوید رکھا جو کہ مذکورہ بالا قول علی وابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مستنبط کیا گیا کیونکہ صحابی کی تفسیر حجت ہے، حتیٰ کہ علامہ محمد مکی نصر نے اپنی کتاب (نہایۃ قول المفید)میں علماء کا تجوید کے وجوب پر اجماع نقل کیا ہے اور فرماتے ہیں : ((فَقَدِ اجْتَمَعَتِ الْأُمَّۃُ الْمَعْصُوْمَۃُ مِنَ الْخَطَا عَلٰی وُجُوْبِ التَّجْوِیْدِ مِنْ زَمَنِ النَّبِیِّ صلي اللّٰه عليه وسلم إِلٰی زَمَانِنَا وَلَمْ یَخْتَلِفْ فِیْہِ أَحَدُ مِنْہُمْ وَہٰذَا مِنْ أَقْوَی الْحُجَجِ۔)) [1] ’’اُمت اسلامیہ کا تجوید کے وجوب پر اجماع ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر آج تک اور کسی نے بھی اس میں اختلاف نہیں کیا اور یہ تمام دلائل سے قوی حجت ہے۔ ‘‘ یعنی تجوید( جوکہ ترتیل ہے ) کے وجوب پر۔ اور علامہ ابن الجزری فرماتے ہیں : ((لَا شَکَّ أَنَّ الْأُمَّۃَ کَمَا ہُمْ مُتَعَبِّدُوْنَ بِفَہْمِ مَعَانِی الْقُرْآنِ
[1] عمدۃ البیان: 22 ونہایۃ قول المفید: 15۔