کتاب: قرآن مجید کے حقوق - صفحہ 63
دی جوکہ ساتوں حروف پر مشتمل تھی اور عرضہ اخیرہ (آخری دور) کی انتہاء تک باقی تھے اور منسوخ نہیں ہوئے تھے۔[1] ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد یہ نسخہ تحریری شکل میں عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیاپھر ان کی وفات کے بعد یہ تحریری شکل حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس منتقل ہوئی۔ آخر خلیفہ راشد عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں 25 ہجری کو خلافت کے دوسرے یا تیسرے سال آرمینیا کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے فوج گئی اور اس فوج کے چیف کمانڈر حذیفہ بن الیمان تھے اُنھوں نے واپسی پر خلیفۃ المسلمین کو لوگوں کے قراء ت کے معاملہ میں اختلاف سے باور کیا تو پھر ((أَرْسَلَ عُثْمَانُ إِلٰی حَفْصَۃَ أَنْ أَرْسِلِیْ إِلَیْنَا بِالصُحُفِ نَنْسُخُہَا فِیْ الْمَصَاحِفِ ثُمَّ نُرُدُّہَا إِلَیْکَ))[2]’’عثمان رضی اللہ عنہ نے حفصہ رضی اللہ عنہا کی طرف پیغام بھجوایا کہ وہ تحریری شکل (وہ صحائف) ہمیں بھیج دیں تاکہ انھیں کی نقل کروا کر ہم آپ کو واپس کر دیں ‘‘…چنانچہ اُنھوں نے وہ صحائف بھیجے اوراس کو نقل کیا گیا جن کو بعد میں مصاحف عثمانیہ سے یاد کیا جاتا ہے اور یہ مصاحف بھی انھیں سات حروف پرمشتمل تھے جن پر قرآن مجید نازل ہوا کیونکہ یہ اسی کی نقلیں تھیں جو حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس صحف تھے اور جو عہد ابو بکر میں بالاجماع ساتوں حروف (اور عرضہ اخیرہ میں ثابت شدہ ) میں لکھے گئے تھے۔[3] پھر عہد عثمانی کے بعد علی رضی اللہ عنہ کا دور آیا تو قرآن مجید اسی طرح پڑھاجاتا رہا جس طرح نازل ہوا حتیٰ کہ تابعین کا دور آیا تو اُنھوں نے بھی قرآن مجید کو اسی طرح پڑھا جس طرح سات حروف میں نازل ہوا تھا جیسا کہ سعید بن جبیر کے بارے میں آتا ہے کہ وہ بھی قرآن مجید کو سات حروف میں پڑھتے تھے پھر قراے عشرہ کا دور آیا اور پوری اُمت کا اجماع ہوا کہ یہ سات حروف
[1] البخاری: 4986 مع الفتح و مناہل العرفان: 1/208 ودلیل الحیران:12 ورسم المصحف:12۔ [2] البخاری: 4987۔ [3] مناہل العرفان:1/211 ودلیل الحیران:13 والنشر:1/31 ورسم المصحف وضبطہ:23۔