کتاب: قرآن مجید کے حقوق - صفحہ 62
بھی امام عاصم نے وہ روایت پڑھائی جو اُنھوں نے زربن حبیش سے پڑھی اور اُنھوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اُنھوں نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے اُنھوں نے جبریل علیہ السلام سے اور جبریل علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے۔ تو چونکہ حدیث کے لفظ ہیں کہ ((فَلْیَقْرَأْ کَمَا عُلِّمَ)) 1 (مجمع الوائد:7/151 والطبری:49،59) ’’جیسا کہ اسے سکھایا گیا (ہر کوئی ) اسی طرح پڑھے اور پڑھائے۔‘‘ اسی لیے ہر صحابی نے جو پڑھا، اسی طرح سکھایا۔ اسی طرح تابعین اور قراء نے حتیٰ کہ ان قراء ات کی نسبت ان کی طرف ہو گئی اور یہ نسبت اسی طرح ہے کہ جس طرح ہم کہتے ہیں کہ یہ حدیث بخاری کی ہے حالانکہ بخاری نے اس کو اپنے پاس سے نہیں گھڑا بلکہ صحیح و متصل ومرفوع سند سے اُنھوں نے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے تو جس طرح حدیث کی نسبت امام بخاری کے اتقان اور ثقاہت وملازمت حدیث و زہد و تقویٰ کی بنیاد پر ان کی طرف کی گئی، اسی طرح قراء ت کی نسبت ان قراء کی طرف اتقان و ثقاہت و زہد و تقویٰ وملازمت کی وجہ سے کی گئی۔ الغرض جوقرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے سات حروف کی شکل میں نازل ہو ا جیسا کہ {إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ} کے تحت بحث ہوئی، وہ {وَإِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ}کے چیلنج کے سات آج تک ہمارے پاس دس قراء توں کی شکل میں محفوظ و مصون ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں یہ سات حروف پڑھتے پڑھاتے رہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے، پھر زمامِ خلافت خلیفہ اول ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ آئی تو اُنھوں نے اپنے دور میں قرآن مجید کو اسی طرح جمع کروایا جس طرح اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے اُنھوں نے حاصل کیا۔ اس کام کے چیف ڈائریکٹر زید بن ثابت تھے جن کی دس سال کی طویل صحبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہی اور وہ عرضہ اخیرہ (آخری دور) میں شامل تھے چنانچہ اُنھوں نے باقی تمام مقررہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ مل کر اس قرآن مجید کو ( جو کہ پہلے سینوں میں تھا اور چیدہ چیدہ لکھا ہوا تھا ) تحریری شکل