کتاب: قرآن مجید کے حقوق - صفحہ 61
کاہاتھ پکڑااور اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گیا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دونوں ہی صحیح ہو پس پڑھتے رہو کیونکہ تم سے پہلے لوگوں نے اختلاف کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کر دیا۔ ‘‘ اس واقعہ کی معمولی سی تفصیل ابن حبان اور مستدرک حاکم میں ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حٰمٓ سے شروع ہونے والی کوئی سورت پڑھائی جب میں مسجد گیا تو میں نے ایک شخص کو وہ سورت پڑھنے کو کہا وہ سورت کو اس انداز میں پڑھنے لگا کہ جس طرح میں نے نہیں پڑھا تھا اور کہنے لگا کہ مجھے یوں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھایا تھا چنانچہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے گئے اور اس معاملہ کی خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ غصے کی وجہ سے متغیر ہو گیا اورفرمانے لگے تم سے قبل لوگ اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے پھر علی رضی اللہ عنہ سے کوئی بات کہی تو علی رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم حکم فرمارہے ہیں کہ تم میں ہر کوئی اسی طرح پڑھے جس طرح وہ سکھایا گیا ہے پھر ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم چلے گئے اور ہم میں سے ہر ایک ان حروف کی قرائت کرتا تھا جن کی اس کا ساتھی نہیں کرتا تھا ۔ ان مذکورہ واقعات سے یہ مترشح ہوا کہ حروف سے مراد قراء ت ہیں جو کہ نبوی دور میں پڑھی جاتی تھیں (جن کو حدیث میں کبھی حروف، کبھی قراء ت سے تعبیر کیا گیا ہے )اور قراے عشرہ نے ( دس قاری) انھیں قراء ت پر ملازمت کی تو ان کی طرف نسبت ہو گئی وگرنہ یہ خود اُنھوں نے گھڑی نہیں بلکہ صحابہ و تابعین سے حاصل کیں جیسا کہ امام عاصم بن بہدلہ، یہ قرائت عشرہ ( دس قراء توں) کے پانچویں قاری ہیں۔ ان کے دو معروف شاگرد امام حفص اور امام شعبہ ہیں۔ امام حفص کو (جن کی روایت پاک و ہند میں پڑھی جاتی ہے ) ان کے استاد امام عاصم نے وہ روایت پڑھائی جو کہ اُنھوں نے ابو عبدالرحمن السلمی سے پڑھی جو اُنھوں نے علی رضی اللہ عنہ سے اور اُنھوں نے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اُنھوں نے جبریل علیہ السلام سے اُنھوں نے اللہ جل شانہ سے۔ اور دوسرے شاگرد امام شعبہ، ان کے استاد