کتاب: قرآن مجید کے حقوق - صفحہ 59
الثَّالِثَۃَ اقْرَأْہُ عَلٰی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ فَلَکَ بِکُلِّ رَدَّۃٍ رَدَدْتُکَہَا مَسْئَلَۃٌ تَسْأَلُنِیہَا فَقُلْتُ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِأُمَّتِی اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِأُمَّتِی وَأَخَّرْتُ الثَّالِثَۃَ لِیَوْمٍ یَرْغَبُ إِلَیَّ الْخَلْقُ کُلُّہُمْ حَتّٰی إِبْرَاہِیمُ علیہ السلام ۔))[1] ’’میں ایک دن مسجد میں تھا اتنے میں ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور نماز پڑھنے لگا اس نے نماز میں ایسی قراء ت کی کہ میں نے اس پر تعجب کااظہار کیا پھر ایک اور آدمی آیا اور اس نے پہلے شخص سے بھی مختلف قراء ت کی جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو ہم سب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میں نے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اس شخص نے قرآن مجید اس طرح پڑھا ہے کہ میں نے اس پر تعجب کا اظہار کیا ہے اور پھر دوسرا (مسجد) میں داخل ہوا اور اس نے اس سے بھی مختلف طریقے سے پڑھا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں کو (اپنے اپنے طریقے سے قرآن ) پڑھ کر سنانے کا حکم دیا تو ان دونوں نے قراء ت کی۔ ان دونوں کی قراء ت سن کر رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں درست قرار دیا اس پر میرے دل میں وسوسہ نے جنم لیا، زمانہ جاہلیت میں بھی اس قدر شدید وسوسہ کی کیفیت پیدا نہ ہوئی تھی۔ جب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے میری یہ کیفیت دیکھی تو میرے سینے پر ہاتھ مارا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ مارتے ہی میں پانی پانی ہو گیا اور میرے پسینے چھوٹ گئے اور مجھے ڈر کے مارے یوں محسوس ہوا کہ میں اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہوں۔ پھر کونین کے تاجدار نے مجھے مخاطب ہو کر فرمایا : اے ابی ! جب قرآن مجید میری طرف بھیجا گیا تو مجھے حکم دیا گیا کہ میں قرآن مجید کو ایک حرف پر پڑھاؤں میں نے جواب میں یہ استدعاء
[1] مسلم: 1903،1904، والنسائی :938 والترمذی : 2945۔