کتاب: قرآن مجید کے حقوق - صفحہ 53
وقت عرب میں بھی تھی اور آج بھی پائی جاتی ہے عرب میں آپ یمن سے لے کر شام تک چلے جائیں آپ کو لہجے اور تلفظ بدلتے ہوئے ملیں گے۔ ایک ہی مضمون کو عرب کے ایک حصے میں کسی اور طرح ادا کرتے ہیں اور دوسرے حصے میں کسی اور طرح۔ لیکن اس اختلاف کے باوجود معنی میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ دوسری چیز جو ان کے نزول کاسبب بنی وہ یہ تھی کہ رسالتماب صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب و عجم سرخ وسفید و سیاہ تمام مخلوق کی طرف بھیجا گیا اور قرآن عرب کی لغت میںنازل ہوا تھا اور عرب کی لغات بھی جدا جدا تھیں زبانیں متفرق تھیں ایک لغت والے کو دوسروں کی لغت میں پڑھنا دشوار تھا بلکہ بعض تو پڑھ ہی نہیں سکتے تھے بلکہ سمجھ بھی نہیں سکتے تھے جیسا کہ روایات میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ایک وفد آیا تھا اور وہ لوگ آکر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کر رہے تھے تو صحابہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ہماری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ تو اسی طرح دوسری قوم کے انداز قرأت میں پڑھنا تعلیم و تدبر سے بھی ممکن نہیں تھا خصوصاً بوڑھوں، عورتوں، ان پڑھ لوگوں کو تو اور بھی دشواری تھی جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشاد سے اس کی طرف اشارہ فرمایا تو پس اگر ہر حالت میں یہ حکم ہوتا کہ ایک ہی حرف پر قرآن مجید پڑھنا ہے تو یہ چیز ان کی طاقت سے باہر ہوتی یا سخت مشقت درپیش ہوتی اور طبیعتیں قرآن کی تلاوت سے مشکل محسوس کرتیں یہ تو ان لوگوں کے بارے میں ہے جو اہل عرب تھے چہ جائیکہ کہ جو عجم ہوں ان کے لیے تو تکلیف مالا یطاق واضح ہے اور اسلام کا میزہ آسانی ہے اور یہ ممکن نہیں تھا کہ ایک ایسا حکم آجاتا کہ جس کی طاقت ہی نہ ہوتی پس اللہ تعالیٰ نے جس طرح اُمت کو دین میں آسانی دی تھی اسی طرح اپنے لطف و کرم وانعام سے قرآن مجید کو پڑھنے میں بھی وسعت کر دی تاکہ آسانی ہو جائے اور اُمت سے رَحمت کا معاملہ ہو جائے۔ چنانچہ مذکورہ تقریر سے یہ بات واضح ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادہ تھا اُمت پر رحمت کرنے کا اور اس کو پورابھی کیا اور ہم پر واجب ہے کہ ہمارا ایمان و یقین محکم ہو کہ قرآن مجید سات حروف میں نازل ہوا ہے۔ قرآن مجید کے اس وصف کے نزول کی توجیہ