کتاب: قرآن مجید کے حقوق - صفحہ 52
تعالیٰ کے پاس گئے اور تیسری مرتبہ آئے اور کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ حکم فرماتے ہیں کہ اپنی اُمت کو تین حرفوں پرپڑھائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ سے اس عافیت اور مغفرت طلب کرتا ہوں میری اُمت اس کی طاقت نہیں رکھے گی پھر جبریل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے پاس گئے اور چوتھی مرتبہ آئے اور کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ حکم فرماتے ہیں کہ اپنی اُمت کو سات حروف پر پڑھائیں جس حرف پر پڑھیں گے درستگی کو پہنچیں گے۔ ‘‘ تو اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ربانی مشیت جس کا ظہور ہونا تھا وہ یہ تھا کہ قرآن مجید کو اُمت محمدیہ کی سہولت اور آسانی کے لیے سات حروف میں نازل کیا گیا جس پر ہر مسلمان کا ایمان لاناضروری ہے کیونکہ یہ منزل من اللہ ہیں ان حروف کے نزول کا پس منظر یہ ہے کہ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ لسانیات میں اختلاف لہجات ایک معروف چیز ہے اسی طرح عرب کے مختلف قبائل اور مختلف علاقوں کی زبان میں بھی خاصا اختلاف پایا جاتا ہے یعنی عربی زبان کے بھی مختلف رضی اللہ عنہ Dialects ہیں لیکن اس اختلاف کی نوعیت ایسی نہیں ہے کہ اس سے زبان کے اندر کوئی بنیادی تغیر رونما ہوجاتا ہو۔ مقامی تلفظ، لہجات، محاورات اور زبان کے بعض دوسرے اسالیب کے اختلاف کے باوجود زبان کا بنیادی سانچہ ایک ہی رہتا ہے، جیسا کہ زبان کے مقامی رنگ اور اختلاف کامشاہدہ ہم آج بھی کر سکتے ہیں مثلاً آپ پنجاب کے مختلف شہروں کے حصوں میں جائیں تو آپ کو یہ چیز واضح ملے گی کہ ہر ضلع بلکہ بعض اوقات ایک ہی ضلع کے مختلف حصوں کی زبان مختلف ہوگی۔ یہی حال اردو زبان کا ہے کہ پشاور سے لے کر مدراس تک چلے جائیں اردو بولنے والوں میں ایک ہی مضمون کو ادا کرنے کے لیے مختلف لہجے مختلف تلفظ اور مختلف محاورے ملتے ہیں۔ دہلی والوں میں ایک ہی مضمون کو ادا کرنے کے لیے مختلف لہجے مختلف تلفظ اور مختلف محاورے ملتے ہیں۔ دہلی والوں اور لکھنؤ والوں کی زبان، اسی طرح حیدر آباد (دکن ) اور پنجاب والوں کی اردو ہے، لیکن ایک ہی مضمون کو ادا کرنے کے لیے مختلف اسالیب اختیا رکیے جاتے ہیں یہی چیز نزول قرآن کے