کتاب: قرآن مجید کے حقوق - صفحہ 50
دنیا سے حالات و واقعات اور اوقات کے مطابق جبریل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تقریباً 23 سال میں نازل کیا جس کے لیے باب تفعیل وَنَزَّلْنٰہُ کے لفظ استعمال کیے گویا اَنْزَلَ وَتَنْزِیْل میں وہی فرق ہے جو اعلام و تعلیم میں ہے جب کسی کو ایک بار خبر دینی ہو تو وہاں اعلام کا لفظ بولتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ یہ خبر سمجھ بھی آئے اور تعلیم یکبارگی معرفت دینا ہے اور نہ ہی ممکن ہوتا ہے کہ شریعت اسلامیہ کی ساری تعلیمات چند لحظات میں دے دی جائیں بلکہ تھوڑا تھوڑا ترسیخ اور اہتمام کے ساتھ تعلیم دی جاتی ہے۔ اگرچہ قرآن مجید میں لفظ نزل (جوکہ باب لازم ہے جس کامعنی ہے اترنا) بھی استعمال ہوا ہے جیسا کہ {نَزَلَ بِہِ الرُّوحُ الأَمِینُ} تو چونکہ اس کے ساتھ بھی باء کا صلہ آگیا ہے تو اس کامعنی بھی یہ ہوگیا ’’اس کے ساتھ اتر اہے روح الامین یا اسے اتارا ہے روح الامین نے ‘‘ …الغرض قرآن کا نزول پہلے دُفْعَۃً وَاحِدَۃً یکبارگی سارے کا سارا رمضان المبارک میں لیلۃ القدر کی رات کو آسمان دنیا پر نازل ہوا پھر اس کا نزول باقاعدہ طور پر دھیرے دھیرے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر شروع ہوا اور سب سے پہلی وحی جو غار حراء میں جبریل علیہ السلام نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑھی وہ سورۃ العلق کی ابتدائی آیات : {اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ .خَلَقَ الْاِِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ .اقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ .الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ .عَلَّمَ الْاِِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ .} (العلق:1۔5) ’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا، پڑھ تیرا رب بڑا کرم والا ہے، جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا، جس نے انسان کو وہ سیکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔ ‘‘ پھر قرآن مجید نے اس پہلی وحی کے بعد تنزلات کی جملہ وادیاں طے کرنا شروع کیں اور ایک ایسے دن کا سورج طلوع ہوا کہ جس میں رحمت الٰہی جوش میں آئی اور اپنی مشیت کو پورا کرنے کے لیے جبریل علیہ السلام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا جو کہ بنی غفار کے باغیچہ کے