کتاب: قرآن مجید کے حقوق - صفحہ 49
’’ہم نے ہی اس قرآن مجید کو نازل کیا اور ہم ہی ا س کے محافظ ہیں۔ ‘‘ اس آیت میں اللہ جل شانہ نے ایک تو نکتہ یہ بیان کیا ہے کہ ہم نے نازل کیا، دوسرا یہ کہ ہم ہی اس کے محافظ ہیں تو ان دونوں نکتوں کی کچھ تفصیل بیان کرتے ہیں۔ ٭ ہم نے اس کو نازل کیا !یہ تو پکی بات ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کتاب ہے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوا کہ کیسے نازل ہوا؟ تو قرآن مجید میں نزول کے حوالہ سے دو طرح کے لفظ استعمال ہوئے ہیں أَنْزَلَ جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے : {اِِنَّآ اَنزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ } (القدر:1) ’’ہم نے اس قرآن کو لیلۃ القدر میں نازل فرمایا۔ ‘‘اور پھر لیلۃ القدر کا تعین بتایا کہ وہ رمضان کا مہینہ ہے۔ {شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ } (البقرۃ: 185) ’’رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔ ‘‘ تو ان دونوں آیتوں میں لفظ أَنْزَلَ باب افعال استعمال ہوا ہے جس کا مطلب ہے اتارنا اور دوسرا لفظ تَنْزِیْلُ باب تفعیل استعمال ہوا جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: {وَنَزَّلْنَاہُ تَنْزِیْلًا} (الإسرائ:106) ’’اور ہم نے قرآن مجید کو نازل کیا تھوڑا تھوڑا کرکے۔‘‘ اب دیکھیں پہلے لفظ باب اِفْعَال سے ہیں اور دوسرے لفظ باب تَفْعِیْل کے ہیں باب افعال کا خاصہ یہ ہے کہ کوئی کام یکبارگی ہو جائے تو باب افعال استعمال کرتے ہیں اور باب تفعیل کا خاصہ یہ ہے کہ کوئی کام درجہ بدرجہ تدرج کے ساتھ تھوڑا تھوڑا، ٹھہر ٹھہر کر بڑے اہتمام کے ساتھ جب ہو تو وہاں باب تفعیل استعمال کرتے ہیں۔ یہی دونوں الفاظ کا دقیق فرق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے سارے کا سارا قرآن مجید لیلۃُ القدر میں (جوکہ رمضان المبارک میں ہوتی ہے اور اسے لیلۃٍ مبارکۃٍ کہا گیا ہے ) آسمان دنیا پر نازل کیا جس کے لیے باب افعال اَنْزَلْنٰہُ فِی لَیْلَۃِ الْقَدْرِ اور أَنْزِلَ فِیْہِ کے لفظ استعمال کیے اور پھر آسمان