کتاب: قرآن مجید کے حقوق - صفحہ 46
مشعل راہ بنایا جائے بلکہ یہ عنصر ہماری ذہنی ساخت کو اس طرح کچل چکا ہے اور مسخ کر چکا ہے کہ آج ہم قرآن مجید کو صرف ایک متوارث مذہبی عقیدے (Dogma)کی بناء پر ایک مقدس کتاب تصور کرتے ہیں جو صرف نزع کے وقت سورۂ یس پڑھنے یا پھر ’’قرآن خوانی ‘‘ جو کہ غیر شرعی ہونے کے ساتھ ساتھ ’’برائے نام خوانی ‘‘ بھی ہے کے لیے ایک ریشمی غلاف میں بند کرکے صندوق یا اونچے طاق میں رکھ دیتے ہیں کہ بوقت ضرورت کام آئے گی۔ ہائے افسوس! مسلمان کے قرآن مجید کے ساتھ اس حقیر تعامل و معاملہ پر جس نے اس کو ایک وقتی ضرورت سمجھا تو قرآن مجید بھی اپنی تمام خوشیوں کو فضیلتوں کو اور بلندیو ں کی پٹاری کو لپیٹ کر ہم سے دور رخصت ہو گیا اور ہم فلسفہ و غلیظ زبانوں کے پجاری بن گئے اور ذلیل و رسوا ہو گئے اور قرآن مجید جو بڑی شان و عظمت سے نازل ہوا اور مومن کانصب العین قرار پایا وہ گمنام ہوگیا۔ بقول شاعر: جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن پردیس میں وہ آج غریب الغرباء ہے اور جو بلندیاں قرآن کی بدولت ملتی تھیں ہم نے تجدد اور فلسفہ سے لینی چاہیں تو شاعر بول اُٹھا: اپنی تو جیب میں دال کا اک دانہ بھی نہ تھا گھومتے پھرتے رہے مصر کے بازاروں میں اور توجہ دلائی : وہ جنس نہیں ایمان جیسے لے آئیں کان فلسفہ سے ڈھونڈنے سے ملے گی قاری کو یہ قرآن کے سیپاروں میں اللہ تعالیٰ ہمیں مذکورہ قرآن مجید کی جزی کو تھامنے کی توفیق دے اور اس کے ثمرات چننے کی توفیق دے۔ آمین ٭ قرآن مجید پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ قلوب میں یقین محکم ہو کہ یہ کتاب اللہ کی