کتاب: قرآن مجید کے حقوق - صفحہ 15
میں اور داؤد علیہ السلام پر زَبور کی صورت میں اوراِبراہیم علیہ السلام پر صحائف کی صورت میں نازل کی گئی اور جب ہم نے بواسطہ جبریل علیہ السلام (جبریل علیہ السلام کے واسطے سے )کہا تو پتہ چلا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ کلام جبریل علیہ السلام کے واسطے سے نبی تک پہنچی (جیسا کہ قرآن مجید میں وضاحت ہے :
{نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ .عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ .} (الشعرائ: 193۔194)
’’اسے امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے آپ کے دل پر اُترا ہے کہ آپ ڈرانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔ ‘‘
نہ کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے (نعوذ باللہ) اپنے پاس سے گھڑا ہے نہ سابقہ کتب سے اقتباس کیا ہے اورنہ ہی کسی بشر سے اس کو سیکھاہے جیسا کہ بعض مستشرقین کا تخیل ہے اور جب اَلْمَبْدُوْئُ بِسُوْرَۃِ الْفَاتِحَۃِ وَالْمَخْتُوْمُ بِسُوْرَۃِ النَّاسِ کہا (کہ یہ فاتحہ سے شروع ہو کر الناس پر ختم ہوتا ہے ) تو پتہ چلا کہ یہی ترتیب ومقدار صحابہ رضی اللہ عنہم کو یاد تھی اس میں کمی نہیں کی گئی اور یہ کہنا بہتان ہے کہ اس قرآن کی 17000 آیتیں تھیں اور جب اَلْمَکْتُوْبُ فِی الْمَصَاحِفِ (مصاحف میں لکھا جا چکا ہے) کہا تو پتہ چلا جہاں صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کو یاد کیا وہاں اس کو مصاحف میں لکھا وہ مصاحف جن کو مصاحف عثمانیہ کے نام سے مسلمان یاد کرتے ہیں اورجب ہم نے اَلْمُتَعَبَّدُ بِتِلَاوَتِہٖ (اس کی تلاوت کرنا عبادت ہے ) کہا تو پتہ چلا کہ کائنات میں کوئی ایسی کتاب نہیں جس کی تلاوت عبادت متصور کی جائے اور اس کو نماز میں پڑھا جائے سوائے اس قرآن مجید کے جس کا ایک حرف پڑھنے سے انسان کو دس نیکیاں ملتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری قسمت میں کرے (آمین ) [1]
[1] البرھان فی علوم القرآن 1/278، والاتقان 1/87، والنہایۃ فی غریب الحدیث والأثر 4/30، والمعجم الوسیط 1،2/722،730، 731 ودراسات فی علوم القرآن الکریم 18۔22 والمنجد 788،789،798،799۔