کتاب: قرآن مجید کے حقوق - صفحہ 14
سابقہ کتب کے علوم و فنون و ثمرات کو جمع کرنے والی اگر کوئی اس وقت کتاب ہے تو وہ قرآن مجید ہے جیساکہ وَ تَفْصِیْلَ کُلِّ شَیْئٍ ، وَتِبْیَانًا لِکُلِّ شَیْئٍ کے اوصاف اس بات کی غمازی کرتے ہیں یا پھر قرآن کو قرآن اس لیے کہتے ہیں کہ فی زَمانہ انحاء عالم اور اقطار الارض میں پھیلی تمام مخلوق کو اگر ایک اسٹیج ایک مَحَطَّۃپر جمع کرنے والی اگر کوئی کتاب ہے تو وہ قرآن مجید ہے (کیونکہ قرآن مجید میں کسی مسلمان کا اختلاف نہیں ہو سکتا اورجو قرآن مجید میں اختلاف کرتا ہے تو ہمیں اس کا ایمان بھی مختلف فیہ نظر آنا چاہیے۔
اصطلاحی تعریف:
اصطلاحی زبان میں قرآن مجید کی تعریف یوں کی جاتی ہے:
((ہُوَ کَلَامُ اللّٰہِ تَعَالَی الْمُنَزَّلُ عَلٰی مُحَمَّدٍ صلي اللّٰه عليه وسلم بِوَاسِطَۃِ جِبْرِیْلَ علیہ السلام اَلْمَبْدُوْئُ بِسُوْرَۃِ الْفَاتِحَۃِ وَالْمَخْتُوْمُ بِسُوْرَۃِ النَّاسِ وَالْمَکْتُوْبُ فِی الْمَصَاحِفِ وَالْمُتَعَبَّدُ بِتِلَاوَتِہٖ۔))
’’قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا وہ کلام ہے جو جبریل علیہ السلام کے واسطے سے پیغمبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی جس کی ابتداء سورۂ فاتحہ سے ہوتی ہے اور انتہاء سورۂ الناس پر ہوتی ہے جوکہ (12 ہزار صحابہ رضی اللہ عنہم کے اجماع سے ) مصاحف میں (سات حروف پر مشتمل ) لکھا گیا اور اس کی تلاوت کرنا عبادت ہے۔ ‘‘
چنانچہ جب ہم نے کلام اللّٰہ (اللہ کی کلام ) کہا تو اس سے پتہ چلا کہ یہ جن و انس اور فرشتوں کی کلام نہیں بلکہ یہ صرف اللہ جل شانہ کی کلام حقیقی ہے اور جب ہم نے اَلْمُنَزَّلُ (نازل شدہ) کہا تو اس سے اللہ تعالیٰ کی وہ کلام مراد ہوئی جو نازل کی گئی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر) نہ کہ وہ کلام مراد ہے جو فرشتوں کے ساتھ کی گئی یا جس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہی ہے اور جب ہم نے علٰی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم پر ) کہا تو پتہ چلا کہ یہ وہ اللہ تعالیٰ کی کلام ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی نہ کہ جو موسیٰ علیہ السلام پر تورات کی شکل میں اور عیسیٰ علیہ السلام پر انجیل کی شکل